افغان جنگ کے 40 سال

افغان جنگ کے 40 سال
افغانستان کی بربادی کے چالیس سال ستائیس دسمبر کو پورے ہوگئے اس دوران لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ افغان سرزمین کی سڑک، سکول، ہسپتال اور لائبریریاں راکھ بن گئیں۔ لاکھوں لوگ زندگیاں بچانے کے لئے دربدر ہو گئے آج بھی بین الاقوامی طاقتوں کی رسہ کشی کی وجہ سے تاریخی، تہذیب یافتہ اور خوبصورت اقداروں کے امین افغانستان کی گلیاں ویران اور خوفزدہ ہیں۔

دسمبر 1979 کو سابق سوویت یونین کی افواج افغانستان میں نظریاتی دوست کی حکومت بچانے کے لئے پہنچی تھی چند ہی دن میں تقریبا ایک لاکھ روسی فوجیوں نے ملک کے بڑے شہروں میں پیپلزڈیموکریٹک  آف افغانستان پارٹی کے حامیوں کو سپورٹ کرنا شروع کر دیا۔ ترقی پسند جماعت چونکہ اشتراکی روس کے قریب ترین دوست تھی جس کی بنیاد ایک عرصہ پہلے رکھی گئی تھی۔  روس نے افغان حکمران ظاہر شاہ کی حکومت کو 1953ء سے تجارتی اور عسکری امداد دینا شروع کی تھی اس لئےدونوں ملکوں کا آپس میں اعتماد کا بہترین رشتہ بھی تھا۔ 70ء کے عشرے میں جب سردار داؤد نے مذہبی جماعتوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تو گلبدین حکمتیار، احمدشاہ مسعود جو کہ دائیں بازو طلبہ لیڈر تھے، پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ ایک بات جو کہ بہت ضروری ہے کہ افغان سول وار کی شروعات سے چند ماہ پہلے گلبدین حکمتیار نے چند سو جنجگوؤں کا گروپ لے کر اپنے ہی کلمہ گو افغان فوجیوں پر حملہ بھی کیا تھا مگر جب روسی افواج افغان سرزمین میں داخل ہوگئیں تو مقامی مذہبی جماعتوں کو فتوی لگانے میں کوئی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور لوگوں کو جہاد کے نام پر جنگی ایندھن بنانے میں بھی زیادہ کوشش کی ضرورت نہیں پڑی۔



چند دن پہلے ایک سابق افغان جنگجو سے ملاقات کے دوران چند حیران کن باتیں سننے کو ملیں ایک تو انھوں نے کہا کہ میں والد یا والدہ  کی موت پر رویا نہیں تھا مگر جب جنرل ضیاء کا ہوائی جہاز میں راکھ ہوا تھا تو میں نے شدید ترین ماتم کیا تھا، اتنا افسردہ تھا کہ میرے شاگردوں اور خاندان کو میری فکر لاحق ہو گئی تھی اور دوسری بات انھوں نے یہ کہی کہ ہم جنگجوؤں نے باچاخان اور ولی خان کو ہمیشہ کافر اور غدار سمجھا لیکن آج کئی سال گزرنے کے بعد میں اپنے ان دونوں کاموں پر نادم اور شرمندہ ہوں۔

انہوں نے کہا کہ  مجھے تو بعد میں معلوم ہوا کہ پشتونوں کا خون بہانے والوں کی موت پر کیوں رویا تھا اور اپنے ہی ہیروز باچاخان اور ولی خان کو کیوں  کمتر اور حقیر سمجھا تھا۔ یہی وہ لوگ تھے جو افغان جنگ کو فساد کہہ رہے تھے۔

Image result for AFGHAN WAR

 تیسری بات انھوں نے یہ کہی کہ ترقی پسند جماعتوں کے ساتھ شدید ترین اختلافات تھے حتیٰ کہ ہم ان کو غیر مسلم ہی تصور کرتے تھے۔  مگر ان اشتراکیوں کے خلاف کئی دہائی بعد بھی کوئی کرپشن ثابت نہ ہو سکی

افغان ترقی پسند حکومت کی سب سے بڑی غلطی یہی تھی کہ انھوں نے آتے ہیں فیوڈلزم کے خاتمے کے لئے جاگیرداروں کی جائیدادوں کو غریبوں میں بانٹنا شروع کیا یہ بہت ہی شاندار اقدام تھا مگر ان جاگیرداروں نے مذہبی لوگوں کو اپنی چھتری تلے جمع کر کے ترقی پسند سوچ کے خلاف منفی پروپیگنڈہ شروع کیا جس میں نہ تو ملا اور نہ ان جاگیرداروں کو فتح حاصل ہوئی بلکہ تمام صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔

چونکہ امریکا کو اپنا ویت نام کا بدلہ لینے کا ایک بہانہ مل گیا اور دوسری طرف روس کو اپنی طاقت پر بھی ناز تھا۔ امریکی سینیٹر چارلی ولسن نے اس وقت کے آمر جنرل ضیاء کو جنگ کے لئے مطمئن کر دیا تھا جس کے بدلے میں عرب، مغرب اور امریکا نے پاکستان کی سرزمین کو "ملحد" روس کے خلاف لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کیا ۔



مرحوم حاجی یوسف شاہ جو کہ پشاور اخبار یونین کے لیڈر تھے، انھوں نے کہا تھا کہ میں صرف یونیورسٹی ٹاؤن میں کئی سو پشتو، اردو اور انگریزی کے اخبارات سمیت مختلف میگزین بھیجتا تھا مگر 1990 کے بعد جب یہاں سے جنگجو چلے گئے تو پھر میرا کاروبار بھی ٹھپ گیا۔ پشاور کے اسی پوش ٹاؤن میں القاعدہ کی بھی بنیاد رکھی گئی تھی اور اسی علاقہ میں نو گیارہ کے بعد امریکی بلیک واٹر کے جاسوس بھی ہوتے تھے یہ چھوٹا سا علاقہ اس لحاظ سے کافی بے وفا ہے جو کسی کو اپنی آغوش میں لمبے عرصہ کےلئے نہیں لیتا۔ اسامہ بن لادن کا استاد عبداللہ بن عزام کو بھی اسی علاقے میں نشانہ بنایا گیا تھا۔

1992 میں پاکستانی حکومت نے تمام وارلارڈز کو سعودی بلا کر قرآن پر ہاتھ رکھوا کر صلح میں اہم رول ادا کیا مگر سب کچھ ہوا کا بلبلہ ثابت ہوا۔ افغان طالبان آ گئے، جنہوں نے تمام چھوٹے سرداروں کو توبہ تائب کیا مگر ان سے جو بڑی غلطی سرزد ہوئی تھی وہ ڈاکٹر نجیب اللہ کا قتل تھا جس کی وجہ سے افغان قوم ایک نہ ختم ہونے والی دلدل میں پھنس گئی اور اتنی کمزور ہو گئی کہ اب تک ہر روز اپنے ہی ملک کو خراب حالت سے نکالنے کے لئے دوسری طاقتوں کی طرف دیکھتے ہیں۔

حالات جو بھی ہوں مگر ایک بات واضح ہے کہ جب تک افغان حکومت افغان قوم کے مستقبل کے فیصلوں میں شامل نہیں ہو گی، کوئی بھی فیصلہ دیرپا نہیں ہوگا اور باقی تاریخ کا یہی سبق ہے کہ تاریخ سے ہم سبق نہیں سیکھتے۔

جنگ کا خاتمہ بہت ضروری ہو چکا ہے آؤ کہ خون اور آہ و بکا کے بغیر باقی چالیس سال اکٹھے گزار لیں۔

 

 

مصنف پشاور سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ان سے رابطہ ٹوئٹر پر @theraufkhan کیا جا سکتا ہے۔