کیا پاکستان نے بلوچستان پر قبضہ کیا تھا؟

قائد اعظم کی وفات کے بعد جب وزیر اعظم لیاقت علی خان کے سامنے بلوچستان کا مسئلہ آیا تو وہ بھی اسے وقتی طور پر حل کرنے کے ٹوٹکے آزما کر کوئی دیرپا حل نکالنے میں ناکام رہے۔ ان کی بلوچستان پالیسی سے بھی یہی تاثر ملتا ہے کہ وہ بلوچستان کے مسئلے کا حل قبائلی سرداروں کو ناراض کر کے نہیں نکالنا چاہتے تھے۔

کیا پاکستان نے بلوچستان پر قبضہ کیا تھا؟

کہا جاتا ہے کہ انگریزوں کی آمد سے قبل بلوچستان ایک آزاد علاقہ یا ایک خودمختار ریاست تھی مگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ دعویٰ درست نظر نہیں آتا۔ بلوچستان کی حیثیت کبھی بھی آزاد علاقے کے طور پر نہیں رہی بلکہ یہ علاقہ ہمیشہ سے کسی نہ کسی ملک، ریاست یا حکمران کے زیر تسلط رہا ہے۔

اس تسلط کا تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ کسی بھی اندرونی انتظام یا بیرونی حکومت نے کبھی بلوچستان کے علاقے کو برصغیر کے باقی علاقوں کے برابر لانے میں کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ بیش تر بیرونی حکومتوں، بادشاہتوں اور حکمرانوں نے سٹریٹجک لحاظ سے اہمیت کے حامل اس علاقے کو پسماندہ ہی رکھنے کو اپنے حق میں بہتر جانا۔

بلوچستان کے بارے میں ایک دعویٰ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ برصغیر کی آزادی کے بعد ریاست پاکستان نے اس پر قبضہ کیا تھا۔ یہ دعویٰ کتنا درست ہے، آج ہم اسی کا جائزہ لیں گے۔

عالمی گریٹ گیم اور تیل کی جنگ

زاہد چودھری اپنی کتاب 'بلوچستان؛ مسئلہ خودمختاری کا آغاز' میں لکھتے ہیں کہ انیسویں صدی کے آغاز میں فرانس کے بادشاہ نپولین بوناپارٹ کو جب روس کے ہاتھوں شکست ہوئی تو عالمی بالادستی کے لئے برطانیہ اور روس میں زبردست مسابقت شروع ہو گئی۔ روس وسطی ایشیا میں تیزی سے پیش قدمی کر رہا تھا اس لئے برطانوی سامراج ہندوستان اور روسی سلطنت کے مابین افغانستان اور ایران کے علاقوں کو اپنے زیر سایہ بفر ریاستیں بنا کر رکھنا چاہتا تھا۔

اس حکمت عملی کے تحت برطانیہ نے برصغیر میں رہتے ہوئے بلوچستان کو سٹریٹجک مقاصد کے لئے اپنے فرماں بردار حکمرانوں کے ذریعے بالواسطہ طور پر اپنے ماتحت تو رکھا مگر کبھی بلوچستان کی سیاسی، معاشی اور معاشرتی ترقی پر توجہ نہ دی۔ درحقیقت اندرونی طور پر کمزور ریاست ہی اس خطے میں برطانوی سامراج کے مفادات کے حق میں جاتی تھی۔ برطانیہ نے کوئٹہ کو براہ راست اپنی عمل داری میں لیا اور ریاست قلات کے ساتھ معاہدہ کر کے یہاں فوج تعینات کرنے کی بھی اجازت لے لی۔

بلوچستان میں صدیوں سے سرداری نظام چل رہا ہے۔ یہاں قبائلی سرداروں کو بے تحاشہ اختیارات حاصل رہے ہیں۔ ان اختیارات کے تحت قبیلے کا سردار اپنے زیرنگیں رہنے والے عوام سے من مانی کا سلوک روا رکھتا تھا اور ان سے اپنی مرضی کا ٹیکس وصول کرتا تھا۔ مخصوص مقاصد کے تحت بلوچستان کے یہ سردار اپنے عوام کو تعلیمی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی طور پر پسماندہ رکھنے کا پورا پورا انتظام کرتے تھے۔ برطانوی سرکار نے بھی اپنی غرض کے لئے نا صرف سرداری نظام کو جوں کا توں برقرار رکھا بلکہ 1901 میں فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز (ایف سی آر) نافذ کر کے یہاں جرگہ سسٹم قائم کر دیا۔ انگریزوں نے جرگہ سسٹم کا نظام صوبہ سرحد میں دیکھا تھا جو پختون روایت کے مطابق کئی صدیوں سے چل رہا تھا۔ انگریزوں نے اسی نظام کو بلوچستان میں نافذ کر دیا اور سرداروں کو کھلی چھٹی دے دی کہ عوام کے ساتھ جیسا چاہیں سلوک کریں مگر برطانوی سرکار کے وفادار رہیں۔

برٹش گورنمنٹ نے برصغیر میں دو مرتبہ سیاسی اصلاحات کیں، پہلی مرتبہ 1909 میں جبکہ دوسری مرتبہ 1919 میں مگر شمال مغربی سرحدی صوبے (موجودہ صوبہ خیبر پختونخوا) اور بلوچستان کو ان اصلاحات سے بے بہرہ رکھا گیا۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران جب جرمن فوجیں اتحادی افواج کو پیچھے دھکیل رہی تھیں، اس دوران خبریں جاری کی گئیں کہ ایران میں بہت بڑی تعداد میں جرمن شہری موجود ہیں جن کی وجہ سے خطرہ ہے کہ ایران میں بھی نازی افواج داخل ہو جائیں گی۔ اس خطرے کے پیش نظر برطانیہ اور امریکہ نے ایران میں رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت ختم کروائی اور اپنی فوجیں یہاں تعینات کر دیں۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ اور برطانیہ نے جب روس کے خلاف سرد جنگ کا اعلان کر دیا تو پاکستان، افغانستان، ایران، عراق اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کی اہمیت میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہو گیا۔ ایک جانب روس ایران کے صوبے آذربائیجان میں تیل کمپنی چلا رہا تھا اور دوسری جانب جنوبی ایران میں اینگلو امریکی تیل کمپنیاں مصروف عمل تھیں۔ برطانیہ اور امریکہ اس کوشش میں تھے کہ روس کو ایران سے نکالا جائے۔ برصغیر میں یہ خبریں چلائی گئیں کہ روس اگر اپنے عزائم پر کاربند رہتا ہے تو وہ ایران کے راستے افغانستان اور پھر بلوچستان سے ہوتا ہوا پاکستان میں داخل ہو جائے گا۔

عالمی سطح پر جاری اس مسابقت نے بلوچستان کو ہمیشہ اہمیت کا حامل خطہ بنائے رکھا اور عالمی طاقتوں نے اس خطے کو پسماندہ رکھ کر کسی نہ کسی طرح اپنے کنٹرول میں رکھنے کے انتظامات جاری رکھے۔

ریاست قلات اور نواب میر احمد یار خان

1556 میں ظہیر الدین بابرنے قندھار میں ارغون خاندان کی سلطنت کا خاتمہ کیا تو قلات میں ایک بلوچ سردار میر عمر خان نے بلوچوں کی ریاست کی بنیاد رکھی جس کی سرحدیں بعض روایات کے مطابق تھوڑے ہی عرصے میں کچھی اور پنجاب کے بعض علاقوں تک پہنچ گئی تھیں۔ اس کی حیثیت ایک باجگزار ذیلی ریاست کی تھی کیونکہ 1556 سے لے کر 1595 تک اقتدار اعلیٰ کبھی قندھار کی صفوی سرکار اور کبھی مغل سلطنت کے صوبہ ملتان کی بکھر سرکار کے پاس رہا۔ 1595 میں یہ علاقہ دہلی کی مغلیہ سلطنت کے ماتحت آ گیا لیکن 1638 میں یہ ایک مرتبہ پھر ایران کی سلطنت سے منسلک ہو گیا۔

ستمبر 1933 میں ریاست قلات کے فرماں روا میر اعظم جان کا انتقال ہوا تو ان کے چھوٹے بیٹے میر احمد یار خان کو گدی پر بٹھایا گیا۔ ماضی میں میر احمد یار خان انگریزوں کا بے حد وفادار رہا تھا اور اسی وجہ سے انگریزوں نے اسے تخت نشین کروایا تھا۔ میر احمد یار خان ریاست میں ایجنٹ ٹو گورنر جنرل کا پرسنل اسسٹنٹ رہ چکا تھا۔ اس کے علاوہ اس نے لیویز فورس میں بھی بطور ایڈجوٹنٹ فرائض سرانجام دیے تھے۔ اسی دوران اسے ژوب اور چاغی میں انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا۔ 1927-28 میں میر احمد یار خان نے روس اور افغانستان کے خلاف انٹیلی جنس رپورٹس برطانوی حکام کو پہنچائی تھیں۔

میر احمد یار خان کو جب فرماں روا بنایا گیا تو انڈین سول سروس کے ایک جواں سال انگریز افسر ایڈورڈ ویکفیلڈ کو اس کا وزیر اعظم بنایا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یورپ میں اس دوران دوسری عالمی جنگ کی تیاریاں شروع ہو چکی تھیں اور روس کی فارورڈ پالیسی کے پیش نظر بلوچستان دفاعی لحاظ سے اور بھی اہمیت اختیار کر چکا تھا۔ اس لئے برطانوی سرکار کے مفاد میں یہی تھا کہ اس اہم خطے میں ایک انگریز افسر کا تقرر عمل میں لایا جائے۔

اسی اہمیت کے پیش نظر میر احمد یار خان نے ایک آزاد اور خودمختار ریاست کا خواب دیکھنا شروع کیا اور جب 1935 کا گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ تشکیل دیا جا رہا تھا تو اس دوران نواب نے اس کی مخالفت میں لابنگ شروع کر دی۔ تقسیم برصغیر تک ریاست قلات کی آزاد حیثیت برقرار رہی۔

شہزادہ عبدالکریم خان کی پاکستان مخالف سرگرمیاں

نواب آف قلات نواب احمد یار خان کا چھوٹا بھائی شہزادہ عبدالکریم خان بعض سرکاری اہلکاروں اور اپنے وفادار ساتھیوں کے ہمراہ قلات سے فرار ہو کر افغانستان چلا گیا اور وہاں اس نے قلات کی آزادی کے لئے پاکستان فوج کے ساتھ جنگ کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ شہزادہ عبدالکریم خان نے جب بلوچستان پر حملہ کیا تو پاکستانی افواج نے اسے منصوبے کی تمام تر تفصیلات کے ساتھ گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا۔

پاکستان کے ساتھ الحاق کا معاملہ

گورنر جنرل قائد اعظم کا مؤقف تھا کہ پاکستان کے علاقے میں موجود ریاستوں پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا جائے گا اور وہ اپنے مستقبل سے متعلق فیصلہ آزادی کے ساتھ کرنے میں آزاد ہوں گی۔ قائد اعظم یہ مؤقف اس وجہ سے اپنا رہے تھے کہ تب تک ریاست جموں و کمشیر، ریاست جونا گڑھ اور ریاست حیدر آباد کے الحاق کا معاملہ زیر التوا تھا اور قائد اعظم نہیں چاہتے تھے ان کے کسی سخت مؤقف سے پاکستان کو مجموعی طور پر نقصان اٹھانا پڑ جائے۔

قائد اعظم کی اسی پالیسی کو بنیاد بنا کر نواب آف قلات آخر تک کوشش کرتے رہے کہ ریاست قلات کسی صورت پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں کرے گی بلکہ برطانوی عملداری ختم ہونے کے بعد ریاست کی سابقہ حیثیت یعنی خود مختاری بحال ہو جائے گی۔ اسی ضمن میں انہوں نے قائد اعظم کو اپنا وکیل بھی بنایا تھا اور اپریل 1947 میں برطانوی کیبنٹ کے ارکان کے بھارتی دورے کے دوران قائد اعظم کی وساطت سے نواب نے ان ممبران کو ایک یادداشت بھی پیش کی تھی کہ برطانیہ کی عمل داری ختم ہونے کے بعد ریاست قلات کو خودمختار ریاست تسلیم کر لیا جائے۔

پاکستان بنتے ہی نئے نویلے ملک کو کئی طرح کے مسائل نے گھیر لیا اور گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی بھی فوری طور پر بلوچستان کے مسئلے کی جانب توجہ نہ دے سکے۔ اسی دوران نواب میر احمد یار خان نے ریاست میں دو ایوانی پارلیمنٹ تشکیل دے کر اس میں ریاست کی خودمختاری سے متعلق بحث چھیڑ دی۔ اس پارلیمنٹ کی حیثیت ربڑ سٹیمپ سے زیادہ نہیں تھی کیونکہ اس کے ارکان براہ راست نواب آف قلات کی جانب سے نامزد کردہ تھے اس لئے وہ مکمل طور پر نواب کے وفادار تھے اور نواب کے پروپیگنڈے کے ماؤتھ آرگن بنے ہوئے تھے۔

اگرچہ بیسویں صدی کی تیسری دہائی سے آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے بلوچستان کے حقوق کی آواز بلند کی جانے لگی تھی تاہم انڈین نیشنل کانگریس بھی بلوچستان کو حقوق دینے اور یہاں اصلاحات نافذ کرنے کے معاملے میں کم و بیش برطانوی پالیسی ہی کی حامی رہی۔ جواہر لعل نہرو کی رائے بھی یہی تھی کہ ہندوستان کی جنوب مغربی سرحد پر واقع بلوچستان کا علاقہ عالمی تناظر میں بہت اہمیت رکھتا ہے اور اس علاقے میں آزاد ریاست کا قیام ہندوستان کے دفاع کو کمزور کر سکتا ہے۔

برصغیر کی تقسیم کے بعد یہ انکشاف بھی ہوا کہ نواب میر احمد یار خان نے بھارتی حکومت کے ساتھ بھی رابطہ کیا تھا اور کہا تھا کہ پاکستان نے ریاست قلات کو آزاد ریاست منظور کر لیا ہے، اب بھارت بھی اسے آزاد ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کر دے اور ہمارے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کا عزم کرے۔ تاہم بھارتی حکومت نے نواب آف قلات کو اس ضمن میں کوئی بھی جواب دینے سے گریز کیا تھا۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے دو مرتبہ نواب میر احمد یار خان کو مشورہ دیا کہ وہ ریاست کا الحاق پاکستان کے ساتھ کر دیں، اسی میں ریاست کی بھلائی ہے۔ مگر نواب آف قلات قائد اعظم کے اس مشورے کو مختلف حیلوں بہانوں کے ساتھ پس پشت ڈالتا رہا۔ بالآخر 1948 میں فوجی دباؤ کے تحت نواب میر احمد یار خان نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی یادداشت پر دستخط کر دیے۔

موجودہ صوبہ بلوچستان میں برٹش بلوچستان اور ریاست قلات کے علاوہ چند اور ریاستیں بھی قائم تھیں جن میں ریاست مکران، ریاست لسبیلہ اور ریاست خاران شامل تھیں۔ تاہم ان ریاستوں نے ریاست قلات کے برعکس آزادی کے فوراً بعد پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیا تھا۔

بلوچستان مسلم لیگ، قائد اعظم اور لیاقت علی خان

بلوچستان میں مسلم لیگ کو فعال کرنے میں اہم کردار قاضی محمد عیسیٰ نے ادا کیا جن کا مطالبہ تھا کہ بلوچستان کی سیاسی، تعلیمی، معاشی اور معاشرتی ترقی کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ تاہم مسلم لیگ کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے قبائلی سردار تھے جن میں نواب محمد خان جوگیزئی سب سے نمایاں تھے۔ قبائلی سردار سمجھتے تھے کہ وہ برٹش بلوچستان کے 95 فیصد عوام کی نمائندگی کرتے ہیں اور مسلم لیگ محض شہری آبادی تک محدود ہے اس لئے بلوچستان میں جو بھی اصلاحات نافذ ہوں گی وہ قبائلی سرداروں کو نظرانداز کر کے عمل میں نہیں لائی جا سکتیں۔ قبائلی سردار بلوچستان کے مستقبل کا فیصلہ مسلم لیگ کے ہاتھ دینے پر کسی صورت آمادہ نہیں تھے۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے مئی 1948 میں بلوچستان کا دورہ کیا جس کے دوران وہ بلوچستان مسلم لیگ کے نمائندوں، قبائلی سرداروں اور آزاد ریاستوں کے نمائندوں سے ملے۔ ان ملاقاتوں کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ فوری طور پر بلوچستان میں سیاسی اصلاحات نافذ نہیں کی جا سکتیں۔ قائد اعظم کو بلوچستان کے مسئلے کا یہ حل سوجھا کہ اسے گورنر جنرل کے ماتحت صوبہ بنا دیا جائے اور صوبے کے انتظام کے لئے ایک مشاورتی کونسل قائم کر دی جائے جس میں بلوچستان کے تمام سٹیک ہولڈرز کو نمائندگی حاصل ہو۔ یہ مشاورتی کونسل براہ راست گورنر جنرل کے ماتحت ہو اور بلوچستان میں اصلاحات سے متعلق گورنر جنرل کو تجاویز دے۔

قائد اعظم کی وفات کے بعد جب وزیر اعظم لیاقت علی خان کے سامنے بلوچستان کا مسئلہ آیا تو وہ بھی اسے وقتی طور پر حل کرنے کے ٹوٹکے آزما کر کوئی دیرپا حل نکالنے میں ناکام رہے۔ ان کی بلوچستان پالیسی سے بھی یہی تاثر ملتا ہے کہ وہ بلوچستان کے مسئلے کا حل قبائلی سرداروں کو ناراض کر کے نہیں نکالنا چاہتے تھے چنانچہ انہوں نے بلوچستان کے معاملے کو جوں کا توں چھوڑ دیا۔

آزادی کے پُر فریب نعرے اور پاکستان کے ساتھ الحاق

نواب آف قلات میر احمد یار خان ایک جانب بلوچ حمیت اور غیرت کی بات کرتے تھے اور بلوچ قوم کے مفادات کے تحفظ کے بڑے بڑے دعوے کرتے تھے، مگر برطانوی حکومت کو یہ پیش کش بھی کرنے سے پیچھے نہ ہٹے کہ اگر برٹش سرکار ریاست کی خودمختاری کی حمایت کرے تو بدلے میں ریاست قلات برطانوی سرکار کو ریاست میں اپنی فوج تعینات کرنے اور فوجی اڈے قائم کرنے کی بھی اجازت دینے پر راضی ہے۔ علاوہ ازیں نواب آف قلات بلوچستان کے معدنی وسائل کی تلاش کا کام بھی برطانوی کمپنیوں کے حوالے کرنے پر تیار تھے۔

اس تناظر میں بلوچستان کی موجودہ صورت حال کی ذمہ دار جہاں پاکستانی ریاست ہے، وہیں اس میں بلوچ سرداروں کا بھی پورا پورا عمل دخل ہے جنہیں عوام کے مسائل اور صوبے کی ترقی سے کبھی سروکار نہیں رہا۔ ہر دور میں ان کی کوشش فقط یہ رہی ہے کہ بلوچستان پر بھلے افغانی حکومت کریں، مغل، انگریز، ہندوستانی یا پھر پاکستانی؛ ان کی اپنی عمل داری بہرصورت قائم دائم رہے۔ آزادی کی آواز بھی محض ریاست قلات سے اٹھتی رہی اور اس آواز کے پیچھے بھی ذاتی اقتدار کی خواہش کا زیادہ عمل دخل تھا، عوام کی فلاح کا جذبہ یہاں بھی مفقود تھا۔ جغرافیائی حدود و قیود کا تقاضا تھا کہ بلوچستان کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہوتا، اسی لیے برٹش بلوچستان نے برصغیر کی آزادی کے فوراً بعد اپنا فیصلہ پاکستان کے حق میں سنا دیا۔

**

حوالہ جات:

اس فیچر کی تیاری میں زاہد چودھری کی کتاب 'بلوچستان؛ مسئلہ خودمختاری کا آغاز' میں درج معلومات سے استفادہ کیا گیا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ سے متعلق سیریز ادارہ مطالعہ تاریخ نے شائع کی ہے اور مذکورہ کتاب اس سلسلے کی ساتویں کتاب ہے۔

خضر حیات فلسفے کے طالب علم ہیں اور عالمی ادب، سنیما اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ نیا دور کے ساتھ بطور تحقیق کار اور لکھاری منسلک ہیں۔