Get Alerts

نئے سال کا بجٹ تنخواہ دار طبقے اور غریبوں کا جینا مزید مشکل کر دے گا

بجٹ میں سیلز ٹیکس کی شرح کو بڑھا کر 18 فیصد کر دیا گیا ہے۔ اس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا اور تنخواہ دار طبقہ جو پہلے ہی ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے، مزید مشکلات کا شکار رہے گا۔ یوں 22 سے 25 فیصد تنخواہوں میں اضافہ بے معنی ہو کر رہ جائے گا۔

نئے سال کا بجٹ تنخواہ دار طبقے اور غریبوں کا جینا مزید مشکل کر دے گا

آزادی اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ یوں بلاشبہ وطن عزیز پاکستان بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے۔ یقیناً ایک آزاد اور خود مختار ملک پاکستان کے قیام کے لیے تمام مکاتب فکر نے گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ لیکن شاید معاشی آزادی، خودمختاری اور خود انحصاری کا خواب ابھی تک پورا نہیں ہو سکا ہے۔ ہمیں اس بات کا بھی بغور جائزہ لینا ہو گا کہ پڑوسی ملک بھارت میں سابق بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ اور بعد میں آنے والے بھارتی وزرائے اعظم نے کون سے اہم معاشی فیصلے کیے ہیں کہ جس بنا پر بھارت نے تقریباً تمام شعبوں بالخصوص آئی ٹی سیکٹر میں قابل ذکر ترقی کی ہے۔

ان دنوں وطن عزیز پاکستان شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ حالیہ بجٹ 25-2024 نے تو شاید غریب سے اس کے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے۔ وفاقی حکومت نے ایک دفعہ پھر بڑے خسارے کا بجٹ پیش کیا ہے۔ یہ بجٹ تقریباً 18 ہزار 777 ارب روپے کا ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق 67 ہزار 524 ارب روپے قرضوں کا مجموعی حجم ہے۔ اس بجٹ میں 20 روپے پٹرولیم پر مزید لیوی کی تجویز بھی دی گئی ہے جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا۔ چونکہ اس سے براہ راست بنیادی اشیائے زندگی مہنگی ہو جائیں گی اور غریب مزید پستا چلا جائے گا۔ ہمیں فوری طور پر اپنی آبادی کو بھی کنٹرول کرنے کے لیے مؤثر حکمت عملی کو اپنانا ہو گا۔ ایک اندازے کے مطابق آبادی کے بڑھنے کی شرح 2.5 فیصد ہے جبکہ صنعتی ترقی کی رفتار 1.2 فیصد ہے۔ گذشتہ سال زرعی شعبے کی بہتر کارکردگی کے باوجود شاید اس کے ثمرات عام عوام تک نہیں پہنچے اور سبزی، پھلوں اور گوشت کی بڑھتی قیمتوں سے عوام الناس شدید پریشان رہے۔

صنعتی ترقی کی رفتار گذشتہ سال 1.2 فیصد رہی جبکہ موجودہ بجٹ میں اس کا ہدف 3.4 رکھا گیا ہے جو شاید ناممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہو گا۔ بجٹ میں 1 ہزار ارب روپے ترقیاتی شعبے کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ تقریباً 1 ارب ڈالر کا قرضہ ورلڈ بینک بھی دے گا۔ لیکن تمام بیرونی قرضوں کا مقصد غیر ترقیاتی اخراجات میں اضافہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان قرضوں سے نئی صنعتوں کے قیام کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے تا کہ اندرون ملک پیداوار کو بڑھایا جا سکے اور برآمدات میں اضافہ کیا جا سکے تا کہ قیمتی زرمبادلہ کمایا جا سکے۔ دنیا کے جن بھی ترقی پذیر ممالک نے قرضے حاصل کیے ہیں تو ان سے نئی صنعتوں کا قیام اور پھر پیداوار میں اضافہ کے ذریعے خام قومی پیداوار میں اضافہ کیا ہے۔ صنعتی ترقی کی بڑی مثالیں بنگلہ دیش، ویت نام اور جنوب مشرقی ایشیا کے بڑے ممالک ہیں۔

تمام معاشی تخمینوں کو دیکھتے ہوئے مہنگائی کا تخمینہ تقریباً 12 فیصد لگایا جا رہا ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں 27 فیصد اضافہ کیا گیا ہے جو کہ ایک اچھا قدم تصور کیا جا رہا ہے۔ معاشی تخمینوں کے مطابق مجموعی ترقی کی شرح تقریباً 3.6 فیصد مقرر کی گئی ہے۔ نئے مالی سال کے بجٹ میں حکومت نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ گاڑیوں پر ٹیکس قیمت کے تناسب سے ہو گا۔ نیز کم سے کم اجرت 36 ہزار مقرر کی گئی ہے لیکن اس کا اطلاق بھی تمام شعبوں پر لازمی ہونا چاہیے۔ بجٹ میں ایک دفعہ پھر تنخواہ دار طبقہ پر عائد ٹیکس مزید بڑھا دیا گیا ہے۔ آئندہ مالی سال کے لیے 12,970 ارب روپے ٹیکس کی وصولیوں کا حجم رکھا گیا ہے۔ نیز کراچی اور اسلام آباد میں نئے ٹیکنالوجی پارکس کے قیام کا عندیہ بھی دیا گیا ہے جو ایک مثبت قدم دکھائی دیتا ہے۔

موجودہ معاشی اعشاریے بتاتے ہیں کہ تقریباً 2 لاکھ 80 ہزار روپے کا ہر پاکستانی مقروض ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق بے روزگاری کی شرح تقریباً 8.5 فیصد ہے۔ ملک کی بدتر معاشی صورت حال کی وجہ سے تقریباً 10 کروڑ سے زیادہ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ماہرین کے مطابق روپے کی قدر میں گذشتہ سال کی نسبت 29 فیصد کمی ہوئی ہے۔ معاشی تخمینوں کے مطابق آئندہ فی کس آمدنی تقریباً 1680 ڈالر ہو گی۔ بجٹ میں پارلیمنٹیرینز کی سکیموں کے لیے 75 ہزار ارب روپے رکھے گئے ہیں لیکن افسوس صد افسوس کہ عام عوام کے لیے کسی سکیم کا اعلان ہوا اور نا ہی کسی ریلیف کا اشارہ دیا گیا۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پہلے ہی مراعات یافتہ طبقے اور سیاست دانوں کو مزید مراعات کا حق دار قرار دیا گیا ہے۔ معیشت میں زراعت کا حصہ 24 فیصد ہے لیکن ٹیکس کا تناسب صرف 1 فیصد ہے۔

ماہرین کے مطابق گذشتہ سال 38 فیصد مہنگائی کے مقابلے میں اس سال مہنگائی کا تناسب پہلے 17 فیصد رہا اور شاید پھر مئی کے مہینے میں 12 فیصد رہا ہے۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو سیلز ٹیکس کی شرح کو بڑھا کر 18 فیصد کر دیا گیا ہے جس سے شاید آنے والے دنوں میں مہنگائی میں مزید اضافہ متوقع ہے اور تنخواہ دار طبقہ جو پہلے ہی ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے، مزید مشکلات کا شکار رہے گا اور 22 فیصد سے 25 فیصد تنخواہوں میں اضافہ بے معنی ہو کر رہ جائے گا۔ حکومت ایک دفعہ پھر ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں ناکام رہی ہے اور صنعتی شعبے اور زراعت کے شعبے کے ٹیکس نیٹ کو بھی بڑھانا ہو گا۔ مجموعی طور پر اگر بجٹ 25-2024 کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ متوسط طبقہ ہی سب سے زیادہ ٹیکس ادا کر رہا ہے۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

دوسری جانب صنعتی ترقی کے لیے بھی حکومت کو فوری طور پر مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے چونکہ تقریباً گیس کی قیمت میں 4 گنا اور پھر بجلی کی قیمت میں تقریباً 3 گنا اضافے سے یقیناً صنعتی ترقی متاثر ہو گی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت، سری لنکا اور خطے کے دوسرے ممالک کی نسبت پاکستان میں پیداواری لاگت کہیں زیادہ ہے۔ اس سلسلے میں مؤثر حکومتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب زراعت کے شعبے میں بھی ٹیکس اصلاحات کی ضرورت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کسان کو بھی تحفظ دینے کی ضرورت ہے تا کہ زرعی شعبے کے مسائل کو بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں سستے قرضے، ٹریکٹر، کھاد اور فرٹیلائزرز کی مناسب قیمت پر دستیابی بھی ضروری ہے۔

دوسری جانب حکومت کو اپنے ٹیکس نیٹ کو بھی بڑھانا ہو گا۔ افسوس صد افسوس کہ ہمارا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب خطے کے تمام ممالک سے کم ہے، یعنی تقریباً 9.5 فیصد جبکہ بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش اور سارک ممالک کا تناسب تقریباً 17 فیصد سے زیادہ ہے۔ لہٰذا حکومت ہر صورت میں ٹیکسوں میں مزید اضافہ کی بجائے اپنے ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو ویت نام، بنگلہ دیش اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی برآمدات بھی ہم سے کہیں زیادہ ہیں۔ ملکی معیشت کی بحالی کے لیے حکومت کو فوری طور پر اپنے غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کرنا ہو گی۔ معاشی مشکلات سے نکالنے کے لیے تمام شعبوں کو اپنے حصے کا ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ ایک اندازے کے مطابق بھارت کے شہر بمبئی نے ہی صرف 150 ار ب پاکستانی روپے کا ٹیکس اکٹھا کیا ہے تو پھر ہم کیوں اپنی اہم قومی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹتے دکھائی دیتے ہیں؟

کچھ طبقوں کی جانب سے ایف بی آر میں بھی اصلاحات کے مطالبات زور پکڑتے جا رہے ہیں۔ معاشی مشکلات پر قابو پانے کے لیے حکومت نے ملک کے تمام بڑے ہوائی اڈوں کی آؤٹ سورسنگ کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے اسلام آباد ایئرپورٹ کو شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ متعدد حکومتی ادارے بشمول پی آئی اے کی نجکاری کی بازگشت بھی سنی جا رہی ہے۔ پی آئی اے، ریلوے اور سٹیل مل میں بڑھتے ہوئے خسارے نے ملکی معیشت کو مزید تباہی و بربادی کی جانب دھکیل دیا ہے۔

ماہرین معاشیات کے مطابق حکومت کو فوری طور پر بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے اہم اور مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے تا کہ ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ حاصل ہو سکے۔ اس سلسلے میں اندرون ملک سرمایہ کار دوست پالیسیوں کو بھی اپنانا ہو گا۔ رئیل سٹیٹ کے شعبے کو بھی فوری طور پر ٹیکس نیٹ میں لانا ہو گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ رئیل سٹیٹ کے شعبے کے مسائل کو بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہو گا۔ چونکہ رئیل سٹیٹ کے ساتھ دیگر اہم شعبوں کے ساتھ ساتھ تعمیراتی صنعت بھی وابستہ ہے جس سے روزگار کے مواقع بڑھتے ہیں چونکہ معیشت میں روزگار کے مواقع پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔

ایک تخمینے کے مطابق 7 سے 8 لاکھ نوجوان ہر سال نامساعد معاشی حالات کی بنا پر پاکستان چھوڑ جاتے ہیں جو ملکی معیشت کے لیے ایک خطرناک رجحان ہے۔ چونکہ ہنرمند اور پڑھے لکھے لوگوں کا ملک چھوڑ دینا بھی مختلف صنعتوں اور شعبوں کے لیے اچھی نوید نہیں ہے۔ ماہرین معاشیات کے مطابق آئی ٹی سیکٹر میں سرمایہ کاری کی بہت گنجائش ہے لیکن اس سلسلے میں آئی ٹی یونیورسٹیوں اور آئی ٹی انڈسٹری کے درمیان اشتراک و تعاون لازم و ملزم ہے تا کہ طلبہ کو جدید دور کے مطابق آئی ٹی کی تعلیم دی جائے۔ آئی ٹی انڈسٹری کی ضروریات کو بھی پورا کیا جا سکے اور آئی ٹی انڈسٹری ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرسکے۔ مستقبل قریب میں بھارت کی طرح ہم بھی آئی ٹی سے متعلقہ مصنوعات کو برآمد کر سکیں۔

دعا ہے کہ حکومت اور پرائیویٹ شعبہ وسیع تر قومی مفاد میں مل کر ملک کو تمام معاشی مسائل سے باہر نکالیں گے۔ چونکہ مظلوم اور غریب پاکستانی عوام خاص طور پر متوسط طبقہ ملکی معیشت کے لیے ٹیکسوں کی مد میں کئی قربانیاں دے چکا ہے۔ بجٹ 25-2024 کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ غریب عوام پر 1500 ارب روپے اضافی ٹیکس لگائے گئے ہیں۔ بجٹ کا بغور جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ تنخواہ دار طبقہ 300 ارب روپے کے ٹیکس ادا کر رہا ہے جو دوسرے تمام شعبوں کی نسبت سب سے زیادہ ہے۔ جبکہ زرعی شعبہ صرف 0.2 فیصد ٹیکس ادا کر رہا ہے جبکہ رئیل سٹیٹ کا شعبہ صرف 0.3 فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے۔ لہٰذا حکومت کو سب سے پہلے ٹیکس کے نظام کو منصفانہ بنانا ہو گا تا کہ بجٹ کے خسارے کو بھی کم سے کم کرنے میں مدد مل سکے۔ چونکہ 25-2024 کا بجٹ تقریباً 9 ہزار ارب روپے کا خسارہ ظاہر کر رہا ہے۔

امید واثق ہے کہ شرح سود میں 22 فیصد سے تقریباً 20 فیصد کمی سے ملک میں کاروباری سرگرمیاں بڑھیں گی اور پھر شاید معاشی اہداف کے حصول میں بھی مدد مل سکے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی اشرافیہ، سرمایہ دار اور جاگیردار طبقہ وطن عزیز پاکستان کو نامساعد معاشی حالات سے باہر نکالیں گے تا کہ وطن عزیز پاکستان کی معاشی خود انحصاری، سلامتی و خود مختاری کا خواب حقیقت کا روپ دھار سکے۔

معاشی ترقی اور معاشی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے حکومت کو اپنی ترجیحات کا بھی تعین کرنا ہو گا مثلاً حکومت کو اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے اہم اقدامات کرنے ہوں گے۔ پہلے مرحلے میں حکومت نے HEC کے بجٹ میں حیرت انگیز کمی کی لیکن بعد میں متعدد حلقوں کی جانب سے حکومت سے درخواست کی گئی کہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کی جائے۔ پھر وفاقی حکومت نے اعلیٰ تعلیم کی مد میں کٹوتی کے فیصلے کو واپس لے لیا۔ حکومت کو ہر صورت میں گردشی قرضوں پر قابو پانے کے لیے جامع حکمت عملی اپنانا ہو گی۔ مختلف معاشی ماہرین کی جانب سے این ایف سی ایوارڈ پر بھی نظرثانی کی متعدد تجاویز سامنے آ رہی ہیں۔ حکومت کو اب ہر صورت میں یہ سوچنا ہو گا کہ پاکستان کی 30 ارب ڈالر کی برآمدات کو کس طرح دوگنا کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں سرمایہ دار دوست پالیسیوں کو اپنانا ہو گا تا کہ درآمدات اور برآمدات کے فرق کو ہر صورت میں کم کیا جا سکے۔

حکومت کو امن و امان کے قیام کے لیے مؤثر اور جامع سکیورٹی پلان تشکیل دینا ہو گا۔ خاص طور پر سی پیک مخالف عناصر اور چینی باشندوں پر حملے کرنے والوں کو عبرت کا نشانہ بنانا ہو گا۔ چونکہ چین کے ساتھ دوستی اور اعتماد کا رشتہ ہماری خارجہ پالیسی کا اہم ستون ہے۔ اندرون ملک امن و امان کے قیام کی بدولت ہی ہم بیرونی سرمایہ کاری کو ملک میں لا سکیں گے۔

مختلف ماہرین معاشیات کی جانب سے پنشن ریفارمز پر بھی زور دیا جا رہا ہے۔ چونکہ پنشن میں 15 فیصد اضافہ اور پھر پنشن کو ٹیکس فری قرار دینا ان اقدامات کی ملکی معیشت کسی بھی صورت میں متحمل نہیں ہو سکتی۔ سابق بھارتی وزیر اعظم نہرو نے ہندوستان کی آزادی کے ساتھ ہی چند سالوں میں زرعی اصلاحات کا نفاذ کیا تھا اور بھارت میں جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ کیا۔ پھر زراعت کے شعبے نے بھارت کی معیشت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ آج ہمیں بھی زراعت کے شعبے میں نئی اصلاحات کے ذریعے زرعی شعبے کے ٹیکس نیٹ میں کردار کو بڑھانا ہو گا۔

رئیل سٹیٹ اور عام دکانداروں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانا ہو گا تا کہ تمام غیر دستاویزی معیشت کو ایک دستاویزی شکل دی جا سکے۔ پھر ہی پاکستان معاشی میدان میں خود انحصاری اور آزاد خارجہ پالیسی کی جانب گامزن ہو سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان پر تقریباً 130 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ ہے جو ملک کی سالانہ مجموعی قومی پیداوار کا تقریباً ایک تہائی سے زیادہ بنتا ہے۔ اس سال جون تک پاکستان نے بیرونی قرضوں کی مد میں 24 ارب ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے جو کسی بھی طرح ممکن دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ دوسری جانب پاکستان نے دوست ممالک سے ادائیگیوں میں توسیع کی سہولت کو حاصل کر لیا ہے۔

امید واثق ہے کہ اب ارباب اختیار اپنے فیصلوں پر نظرثانی کریں گے تا کہ ملک کو سیاسی اور معاشی مشکلات سے باہر نکالا جا سکے اور عام غریب پاکستانی کی بھی داد رسی کی جا سکے۔ آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت کرے جو ہمیشہ قائم و دائم رہنے کے لیے ہی قائم کیا گیا ہے اور ہم جلد معاشی خود مختاری و خود انحصاری کے خواب کو پورا کر سکیں۔

پروفیسر کامران جیمز سیاسیات کے استاد ہیں اور فارمن کرسچین یونیورسٹی لاہور میں پڑھاتے ہیں۔