Get Alerts

غیر منصفانہ ٹیکس پالیسی کا سارا بوجھ تنخواہ دار متوسط طبقے پر ہے

حکومت فنانس ایکٹ 2024 میں تنخواہ پر انکم ٹیکس کی شرح بڑھانے سے بچ سکتی تھی، جس سے تقریباً 70 ارب روپے اضافی حاصل ہوں گے، اگر وہ آئی ایم ایف کی تجویز پر ٹیکس سے مستثنیٰ امیر پنشنرز پر ٹیکس لگا دیتی۔ اس ٹیکس سے تقریباً 80 ارب روپے سالانہ جمع ہو سکتے تھے۔

غیر منصفانہ ٹیکس پالیسی کا سارا بوجھ تنخواہ دار متوسط طبقے پر ہے

'بہت سے بیوروکریٹس، ججز اور فوجی افسران ریٹائرمنٹ کے بعد نوکریاں حاصل کر لیتے ہیں اور پھر بھی انہیں پوری پنشن (ٹیکس فری) ملتی رہتی ہے۔ اس بجٹ میں پنشن فنڈ 1,000 بلین روپے سے زیادہ ہے جس میں کچھ کو 1.6 ملین روپے ماہانہ پنشن کے طور پر مل رہے ہیں اور 3,000 سے زیادہ افراد 200,000 روپے ماہانہ پنشن وصول کر رہے ہیں۔

(ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ ججوں کو ٹیکس فری پنشن ملتی ہے) 'دیگر مراعات کے ساتھ یہ ہر ماہ 7-14 لاکھ روپے تک مختلف ہوتی ہے، ایک سینیئر سرکاری ملازم کی 2 لاکھ روپے کی پنشن ایک مذاق ہے۔ وہ اس سے صرف ایک چھوٹے سے گھر کا کرایہ اور یوٹیلیٹی بل ادا کر سکتا ہے اور معمولی زندگی گزار سکتا ہے۔

فوجی پنشنز (662 بلین روپے) سول کی 220 بلین روپے کے مقابلے میں تین گنا ہیں (بجٹ دستاویزات 2024-25 کے مطابق) اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد وہ سول عہدوں پر بھی فائز رہتے ہیں اور (وہاں سے ادائیگی کے باوجود پنشن پر انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے)۔

161 (164) بیوروکریٹس اور ریٹائرڈ فوجی افراد جو بیرون ملک مقیم ہیں، وہ ڈالرز میں (ٹیکس فری) پنشن لیتے ہیں۔۔۔'

یہ قوسین اور ہائپر لنکس کی ترامیم کے ساتھ ایکس تھریڈز سے کچھ اقتباسات پیش کیے گئے ہیں۔

فنانس ایکٹ 2024 کے تحت عائد کردہ انکم ٹیکس کی بلند شرح جو 'تنخواہ' (جس کی تشریح انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن (2) 12 میں بیان کی گئی ہے) کی آمدنی پر ماہانہ کٹوتی کی شکل میں یکم جولائی 2024 سے لاگو ہو چکی ہے، ان ملازمین کے لیے جن کی ماہانہ آمدنی 300,000 روپے تک ہے، کے لیے غاصبانہ، بھتہ خوری، بلکہ ضبطی اور امتیازی ہے۔ بلاشبہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 4، 14، 18، 23 اور 25 کے تناظر میں غیر آئینی ہے، خاص طور پر بالواسطہ ٹیکسز کی بلند شرح، یوٹیلیٹیز کی بڑھتی ہوئی لاگت اور انتہائی بلند افراط زر کے اضافی بوجھ کے ساتھ۔

محدود یا مقررہ آمدنی کے ذرائع کے حامل افراد کے لیے، رجعت پسند بالواسطہ ٹیکسوں، خاص طور پر کھانے پینے کی اشیا (بشمول دودھ)، روزمرہ استعمال کی اشیا، ادویات اور تعلیمی آلات پر 18 فیصد سیلز ٹیکس کے تباہ کن مالی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ آسانی سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں مروجہ ٹیکس نظام اور محصولات کی انتہائی بلند شرح کا نفاذ عوام دشمن، کاروبار مخالف اور ترقی کے خلاف ہے۔ یہ بلاشبہ ہماری دگرگوں معیشت، غریبوں اور متوسط ​​طبقے سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کے لیے تباہ کن ہے۔

جو چیز صورت حال کو مزید تکلیف دہ بناتی ہے وہ یہ ہے کہ مراعات یافتہ طبقات کو دستیاب ٹیکس فری مراعات اور الاؤنسز ناصرف برقرار ہیں، بلکہ ان میں مزید اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ بتانا ضروری ہے کہ چند مراعات یافتہ طبقات اور افراد، جو ٹیکس دہندگان کے پیسوں پر پروان چڑھتے ہیں یا مہنگے ادھار کی رقم کے ذریعے مالی اعانت حاصل کرتے ہیں، اس کا تمام تر بوجھ بالآخر عام شہریوں کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔

انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن (f) (2) 12 میں 'تنخواہ' کی تعریف میں پنشن بھی شامل ہے، اس طرح یہ عام عائد شدہ شرحوں پر قابل ٹیکس ہے۔ تاہم آرڈیننس کے دوسرے شیڈول کے حصہ اول کی شق (8)، (9)، (12) اور (13) کے تحت پنشن یا اس کی commutation ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ استثنیٰ مسلح افواج کے ارکان، سرکاری ملازمین، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججز کے لیے، خواہ ریٹائرمنٹ کے بعد ملازمت حاصل کریں یا ان کا کوئی اور بھی ذریعہ آمدن ہو یا ایک سے زیادہ پنشن حاصل کریں، جاری رہتا ہے۔ اس طرح وہ تاحیات ٹیکس سے مستثنیٰ 'پنشن یافتہ' زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں، چاہے بعد از ریٹائرمنٹ سرکاری، نیم سرکاری اور پرائیویٹ سیکٹر میں اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز ہوں!

عام شہریوں کے لیے کسی بھی ایک سابق آجر سے وصول کی گئی پنشن ٹیکس سے مستثنیٰ ہے، اگر بعد از ریٹائرمنٹ وہ شخص اس آجر یا اس کے associate کے لیے کام جاری نہ رکھے۔ ایسی صورت میں جہاں فرد کو ایسی ایک سے زیادہ پنشنز ملتی ہوں، ٹیکس چھوٹ صرف موصول ہونے والی زیادہ رقم کی پنشن پر لاگو ہوتی ہے۔

حکومت فنانس ایکٹ 2024 میں 'تنخواہ' پر انکم ٹیکس کی شرح بڑھانے سے بچ سکتی تھی، جس سے تقریباً 70 ارب روپے اضافی حاصل ہونے کی توقع ہے، اگر وہ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) کی تجویز قبول کر کے ٹیکس سے مستثنیٰ امیر پنشنرز پر ٹیکس لگا دیتی، جس سے رواں مالی سال میں تقریباً 80 ارب روپے حاصل ہوتے۔

ایف بی آر کی ٹیکس اخراجات کی رپورٹ 2024 کے مطابق پنشن کو ٹیکس سے مستثنیٰ کرنے کی کل لاگت ٹیکس سال 2023 میں 78.34 بلین روپے تھی۔ مالی سال 2024-25 میں پنشن میں 15 فیصد کا اضافہ بھی کیا گیا ہے جس کا بوجھ ٹیکس گزار ہی برداشت کریں گے۔ اگر ایک تنخواہ دار فرد سالانہ 600,000 روپے سے زائد آمدنی پر ٹیکس ادا کرتا ہے تو پھر یہ حد تمام افراد پر لاگو ہونی چاہیے، چاہے اس کا ذریعہ آمدنی کچھ بھی ہو بشمول پنشن۔ تمام افراد سے یکساں آمدنی پر یکساں انکم ٹیکس وصول کرنے کا اصول معاشرے میں معاشی برابری لانے کے لیے ضروری ہے۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

پنشن کے لیے رواں سال کا وفاقی بجٹ 1014 ارب روپے مختض کیا گیا ہے، جس میں سے 662 ارب روپے فوج کے لیے اور 220 ارب روپے سویلینز کے لیے ہے۔ یہ سارا خرچہ مہنگے ادھار کے فنڈز سے پورا کیا جائے گا کیونکہ وفاقی حکومت کی خالص آمدنی 10377 بلین روپے (اگر ٹیکس ریونیو کا ہدف 12970 ارب روپے اور نان ٹیکس کا 4845 ارب روپے پورا ہو گیا) محض قرض کی ادائیگی کے 9775 ارب روپے کے لیے بمشکل کافی ہو گی۔

تنخواہ دار ملازمین کے لیے نئے ٹیکس سلیبز، 10 فیصد سرچارج کے ساتھ، اگر سالانہ قابل ٹیکس آمدنی 10 ملین روپے سے زیادہ ہے سب کے لیے اضافی بوجھ ہیں، لیکن درمیانی آمدنی والے گروپ کے لیے جو 300,000 روپے ماہانہ تک کماتے ہیں، تباہ کن ہیں۔ سال میں 36 لاکھ کی تنخواہ پانے والے افراد بھی ٹیکس کے بعد خالص آمدنی سے چار افراد کے اوسط خاندان کے گھریلو اخراجات بھی پورا نہیں کر پائیں گے تو اس سے کم کمانے والوں کا کیا حشر ہو گا؟ ودہولڈنگ ٹیکس کے بعد 3.6 ملین روپے سالانہ تنخواہ کمانے والے شخص کے لیے ماہانہ اجرت صرف 254,000 روپے ہو گی۔

آج کی قیمتوں کے لحاظ سے 254,000 روپے کی رقم محض یوٹیلیٹی بلز، آمد و رفت، دو بچوں کی تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے بھی کافی نہیں ہو گی۔ گھر کی ملکیت نہ ہونے کی صورت میں کسی بھی بڑے شہر میں ایک عام رہائش کے لیے آج 75000 سے 100,000 روپے ماہانہ کرایہ کا خرچ آئے گا۔

بجٹ بنانے والوں کو تو سرکاری رہائش اور ٹیکس فری مراعات حاصل ہیں، مگر وہ آج ایک ملازمت پیشہ فرد کی ماہانہ 300,000 روپے آمدنی سے ہر مہینے 46000 روپے کا انکم ٹیکس وصول کر کے اس کو تو مالی مشکلات میں دھکیلنا چاہتے ہیں، لیکن جو جج حصرات ماہانہ 10 لاکھ سے بھی زائد پنشن حاصل کر رہے ہیں ان کی ٹیکس چھوٹ کو واپس لینے کو تیار نہیں ہیں۔ امیر ملازمت پیشہ افراد پنشن فنڈ میں سرمایہ کاری کر کے ٹیکس سال 2023 میں 2024 ملین روپے کا rebate حاصل کر چکے ہیں جس کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے مطالبے کے بعد بھی ختم نہیں کیا گیا۔

یکم جولائی 2024 سے 1,200,000 روپے سے 2,200,000 روپے تک کی سالانہ تنخواہ پر 15 فیصد ماہانہ انکم ٹیکس کٹوتی کی شرح لاگو ہے۔ 2.2 ملین روپے سے زائد اور 3.2 ملین روپے تک شرح 25 فیصد ہے۔ 30 فیصد کی شرح 3.2 ملین روپے سے زیادہ اور4.1 ملین روپے سالانہ تنخواہ پر لاگو ہوتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ ٹیکس کی شرح 35 فیصد ہے جو کہ 4.1 ملین روپے سے زیادہ سالانہ تنخواہ پر لاگو ہوتی ہے۔ 10 فیصد سرچارج بھی لاگو ہو گا جہاں سالانہ قابل ٹیکس تنخواہ 10 ملین روپے سے زیادہ ہو۔

بدقسمتی سے پاکستان میں ٹیکسوں کا بوجھ غریب اور کم مراعات یافتہ طبقوں پر مسلسل بڑھایا جا رہا ہے، خاص طور پر سفید پوش (وائٹ کالر) تنخواہ دار افراد اور مقررہ آمدنی والے نچلے اور متوسط ​​طبقے کے ارکان پر۔ اس کے برعکس امیر اور طاقتور افراد معمولی انکم ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ ملیٹرو جوڈیشل سول کمپلیکس کے ارکان اور ارکان پارلیمنٹ غیر معمولی ٹیکس فری مراعات اور فوائد سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ ٹیکس دہندگان کے پیسے کے اس بے رحمانہ ضیاع پر کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔

تنخواہ دار لوگ مجبور ہیں کہ وہ اپنی تنخواہ سے کھانے پینے کے اخراجات کے بعد ایک بھاری رقم اپنے سکول جانے والے بچوں کی تعلیمی ضروریات پر خرچ کریں (جو بنیادی طور پر آئین کے آرٹیکل 25 اے کے تحت ریاست کا فرض ہے) اور پھر بھی آرڈیننس کے سیکشن 60 ڈی کے تحت پوری رقم کے لیے ٹیکس کریڈٹ دستیاب نہیں ہے۔ یہ 1.5 ملین روپے کی قابل ٹیکس آمدنی تک محدود ہے۔ یہ تنخواہ دار طبقے کے تئیں ہماری حکومت کی بے حسی کو ظاہر کرتا ہے جو ملک میں متوسط ​​طبقے کی بھاری اکثریت پر مشتمل ہے۔ اس کے برعکس ٹیکس میں بے مثال چھوٹ اور فوائد معاشرے کے امیر طبقے تک پہنچائے گئے ہیں۔

ظاہر ہے تنخواہ دار افراد کے لیے زیادہ شرح کے ٹیکس سلیب اور رجعت پسند ٹیکسوں کی وجہ سے مہنگائی میں اضافے کا اثر تمام ملازمین کو متاثر کرے گا، بشمول پبلک سیکٹر کے ملازمین، جو تنخواہ میں اضافے کو بے اثر کر دے گا۔ لیکن گریڈ 20-22 کے لوگ آرڈیننس کے دوسرے شیڈول کے حصہ دوئم کی شق (27) کے تحت خصوصی چھوٹ کا لطف اٹھاتے رہیں گے جس میں کہا گیا ہے؛ 'BS-20 سے BS-22 تک سرکاری ملازمین کے لیے ٹرانسپورٹ کی لازمی منیٹائزیشن کے تحت ادائیگیوں پر ٹیکس (ڈرائیور کی تنخواہ میں کٹوتی کے بعد) 5 فیصد کی شرح سے آمدنی کے الگ بلاک کے طور پر وصول کیا جائے گا'۔

یہ امتیازی سلوک موجودہ حکومت کے ان دعوؤں کے کھوکھلے پن کی تصدیق کرتا ہے کہ وہ ملازمین پر ٹیکسوں کا بوجھ نہ بڑھانے اور تمام شہریوں کی تعلیم اور صحت کو ترجیح دینے کے بلند و بانگ دعوے پر قائم ہے۔ حقیقت بلکل برعکس ہے جیسا کہ اوپر بیان کی گئی ہے۔

کیا وزیر اعظم شہباز شریف یہ معلوم کرنے کے لیے تحقیقات کا حکم دیں گے کہ بی ایس 20-22 کے کتنے افسران مذکورہ بالا شق کا فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ سرکاری ٹرانسپورٹ کا استعمال کر رہے ہیں؟ قانون کے غلط استعمال کا یہ معاملہ کبھی میڈیا یا پارلیمنٹ میں اجاگر نہیں ہوتا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بجٹ سازی کے دوران فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر) کے چیئرمین نے وفاقی وزیر خزانہ اور محصولات محمد اورنگزیب کو اس شق کے بارے میں کیوں آگاہ نہیں کیا؟ حیرت کی بات ہے کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح بڑھانے پر اس قدر زور دینے والے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے 2012 میں داخل کی گئی اس رعایت کو واپس لینے پر کبھی اصرار کیوں نہیں کیا؟

لاکھوں تنخواہ دار افراد، جن کی آمدنی کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے، اپنے زیر کفالت بچوں کو تعلیم کے لیے فنڈز فراہم کر رہے ہیں مگر ان پر غیر آئینی طور پر ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ تمام الاؤنسز بشمول خصوصی عدالتی الاؤنس اور ساتھ ہی ہمارے بہت سے فوائد بھی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے تنخواہ دار ججز کے لیے آرڈیننس کی شق (55) اور (56) پارٹ I، سیکنڈ شیڈول کے تحت مکمل طور پر مستثنیٰ ہیں۔ ان کی طرف ایف بی آر اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی نظر کیوں نہیں جاتی؟

آرڈیننس کی دفعہ (11) 13 اور (1) (j) 39 کا تقاضا ہے کہ کسی بھی ملازم کو مفت یا رعایتی شرح پر فراہم کردہ کسی بھی فائدے کی مارکیٹ ویلیو اس کی آمدنی میں شامل کی جائے۔ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پرعزم ہونے کا دعویٰ کرنے والے وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ ایف بی آر کو ان تمام سرکاری ملازمین سے اربوں کے ریونیو کی وصولی کا حکم دیں جنہوں نے مفت یا رعایتی پلاٹ یا زمینیں یا کوئی اور مراعات حاصل کیں اور انہوں نے اس پر واجب الادا ٹیکس ادا نہیں کیا۔ آرڈیننس کی دفعہ (11) 13 اور سیکشن (j) (1) 39 کی روشنی میں ان بھاری رقوم کی وصولی سے غریبوں اور مستحق افراد بشمول کم تنخواہ پانے والے طبقے کو ریلیف دینے کے لیے کافی وسائل پیدا ہوں گے۔

مضمون نگار وکالت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ وہ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) میں ایڈجنکٹ فیکلٹی، ممبر ایڈوائزری بورڈ اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کے سینیئر وزٹنگ فیلو ہیں۔