جو کوئی بھی کرکٹ کو سمجھتا ہے، وہ جانتا ہے کہ چھٹے نمبر کا بلے باز کیسا ہوتا ہے۔ مڈل آرڈر کے نام سے مشہور یہ پوزیشن عام طور پر وہ جگہ ہوتی ہے جہاں ایک آل راؤنڈر بیٹنگ کے لیے آتا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں عمران خان اپنے کرکٹ کیریئر کے عروج پر بیٹنگ کرتے تھے۔ ان کے ساتھی انگلینڈ کے ایان بوتھم اور بھارت کے کپل دیو جو کہ اپنے وقت کے مشہور آل راؤنڈرز تھے، انہوں نے بھی اس پوزیشن پر بیٹنگ کی۔ ان کھلاڑیوں کا جائزہ لینے سے ان کے بیٹنگ سٹائل میں ایک عام خصوصیت کا پتہ چلتا ہے کہ وہ سب جارحانہ کھلاڑی تھے۔
عمران خان اپنے ٹریڈ مارک سفید ہیلمٹ یا کبھی کبھی صرف سبز ٹوپی کے ساتھ گیند بازوں کا سامنا کرتے ہوئے بیٹ کو اپنے پیچھے ہوا میں لہرائے رکھتے تھے۔ یہ انوکھا انداز ان کے ساتھ اس قدر قابل شناخت تھا کہ جب بھی آپ انہیں کریز پر دیکھتے تو آپ کو فوراً پتہ چل جاتا کہ یہ وہی ہیں۔ وہ کبھی بھی گراؤنڈ پر معمولی باتوں میں ملوث نہیں رہے۔ کھیل ان کے لئے سنجیدہ معاملہ تھا اور انہوں نے اسے اسی جذبے کے ساتھ کھیلا۔ دوسری جانب سیاست، جسے انہوں نے کرکٹ چھوڑنے کے بعد اپنے دوسرے کیریئر کے طور پر منتخب کیا، ایک مختلف میدان ثابت ہوا۔ یہاں بھی انہوں نے وہی جارہانہ انداز اختیار کیا۔ اگر سیاست میں عمران خان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو کرکٹ سے دلچسپ تشبیہات کے ساتھ پرلطف نمونے سامنے آتے ہیں۔
خان پاکستانی سیاست کے کھیل کے اصولوں کو چیلنج کرتے نظر آتے ہیں، ایسا انداز جو پاکستانی سیاست کی روایات سے بالکل مختلف ثابت ہوا ہے۔ صحیح ہو یا غلط، اچھا ہو یا برا، حالات ان کے لئے کام کرتے رہے ہیں اور وہ اپنی کامیابی کے لئے سخت محنت کرتے رہے، اپنے مخالفین کو مایوس کرتے رہے، جو اس سیاسی ٹورنامنٹ کے دوران، ان کی 'بولنگ' یا 'بیٹنگ' کا مقابلہ نہیں کر سکے۔ وہ اکثر شکایت کرتے نظر آئے، کبھی 'تھرڈ امپائر' کو بلاتے، غلط کھیل کا الزام لگاتے، اور بعض اوقات خراب موسم اور خراب روشنی کو 'گیند' کو دیکھنے میں دشواری کا ذمہ دار ٹھہراتے، اور کبھی خراب 'پچ' اور 'ناہموار کھیل کے میدان' کی شکایت کرتے دکھائی دیتے۔
دوسری جانب، خان اکثر اپنے گیند بازوں، بیٹنگ آرڈر کے ساتھ ساتھ وقتاً فوقتاً مقرر کردہ کوچز کے ساتھ تجربات کرتے تھے۔ تاہم وہ 2013 میں پہلے 'میچ' میں 'ٹاس' ہار گئے، جس کی وجہ سے ان کے حریفوں کو پہلے 'بیٹنگ' کرنے کا موقع ملا۔ ان کے کوچز نے انہیں ایک بار پھر صحیح یا غلط مشورہ دیا کہ وہ ایک انتہائی تجربہ کار حریف ٹیم کے خلاف جارحانہ 'بولنگ' اٹیک شروع کریں۔ یہ جانتے ہوئے کہ نوجوان گیند بازوں پر مشتمل ان کا سکواڈ جارحانہ سپیل کے لیے زیادہ مؤثر نہیں تھا، انہوں نے 'گیند' کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا، جیسا کہ شاید ان کے کوچز نے مشورہ دیا تھا، اور ہم نے خان کو 126 دن تک 'کنٹینر' کے اوپردیکھا۔ 2014 میں اے پی ایس پر ہونے والے بدقسمت دہشت گردانہ حملے کے بعد انہیں وہاں سے نیچے اترنا پڑا۔
بظاہر یہ کہ آسمانی طاقتوں نے مداخلت کی، جس کی وجہ سے موسم تیز گیند بازی کے لیے نامناسب ہو گیا۔ انہیں اپنی حکمت عملی میں ترمیم کرنا پڑی اور اپنے حریفوں کو اپنے 50 'اوورز' مکمل کرنے کا موقع دینا پڑا۔
انہوں نے 2018 میں اپنی 'اننگز' کا آغاز کیا۔ کپتان کی حیثیت سے انہوں نے اپنے 'بیٹنگ آرڈر' میں تجربات کیے اور ایسے کھلاڑیوں کو بھیجا جنہوں نے ان کے حامیوں اور یہاں تک کہ حریفوں کو بھی حیران کر دیا۔ وسیم اکرم پلس اور اسد عمر کو اوپننگ جوڑی کے طور پر منتخب کرنا کافی مایوس کن تھا۔ ایک نے 50 گیندوں پر صرف 5 رنز بنائے، دوسرے نے 'بیٹ' اٹھایا اور پوری اننگز میں ناٹ آوٹ 8 رنز بنائے۔ ایک بار پھر، آسمانی طاقتوں نے کردار ادا کیا اور خان کو اپنی اوپننگ جوڑی کی خراب کارکردگی کے بارے میں اپنے حامیوں کو پرسکون کرنے کا بہانہ فراہم کیا۔ یہ کوویڈ 19 کا دور تھا۔ انہوں نے اپنے حامیوں سے یہ بھی کہا (اور وہ آج تک اس بات پر قائم ہیں) کہ ان کے کوچز اور سلیکشن کمیٹی نے انہیں کھیلنے کے لئے ایک خراب ٹیم فراہم کی ہے۔ وہ ناصرف نااہل تھے بلکہ ٹیم کے ساتھ ان کی وفاداری اور وابستگی بھی کئی معاملات میں مشکوک تھی۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
جب یہ کہانیاں منظر عام پر آئیں اور ڈریسنگ روم سے باہر پھیل گئیں تو کوچز اور ٹیم سلیکٹرز نے کپتان اور ان کی ٹیم کو برطرف کرنے کا فیصلہ کیا۔ خان کی ٹیم اپنی اننگز مکمل نہیں کر سکی اور 37 ویں 'اوور' میں 'میچ' منسوخ کر دیا گیا، جس سے خان غصے میں آ گئے۔ انہوں نے پریس کانفرنسوں اور احتجاج کا سہارا لیا اور اپنے حامیوں کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ کس طرح ان کی ٹیم کے منیجرز اور کوچز نے اپنی ہی ٹیم کے خلاف سازش کی تھی اور کس طرح انہوں نے میچ کے دوران کھلاڑیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تھی۔
جب دونوں جانب سے عمران خان اور ٹیم کوچز کی جانب سے الزامات میں اضافہ ہوا تو چیئرمین نے بورڈ کو تحلیل کرنے اور اگلے میچ کے انعقاد کے لیے ایڈہاک کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔ یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا۔ سابق کوچز اور مینجرز نے عمران خان پر میچ کے دوران بال ٹیمپرنگ، سٹیرائڈز لینے اور دیگر خلاف ورزیوں کے الزامات پر عدالت میں گھسیٹا۔ یہاں تک کہ بورڈ کی ایڈہاک کمیٹی خان کو اگلے میچ کے لئے کپتانی لینے سے روکنے میں بھی کامیاب رہی، اور ان کی ٹیم کے بقیہ کھلاڑی، سابق کوچوں کے جانے کے بعد، تیاری کے بغیر میچ میں اتار دیے گئے۔
امپائر نے حریف ٹیم کو چھوٹ دے کر انہیں ٹاس کے بغیر پہلے بیٹنگ کرنے کی اجازت بھی دے دی۔
ظاہر ہے کہ اب خان کے سکواڈ میں شامل اس سے بھی زیادہ ناتجربہ کار ٹیم نے اپنے کپتان کی غیر موجودگی میں ان کی قیادت کرنے کے لیے احتجاج کا سہارا لیا۔ پہلی بار کام کرنے والوں کو لانچ کیا گیا تھا۔ نٹھلے کھلاڑیوں کو کپتان اور نائب کپتان مقرر کیا گیا اور میچ کا دن آ گیا۔ جبکہ ایڈہاک کمیٹی اور حریف ٹیم کو یقین تھا کہ انہوں نے خان کی ٹیم کو شکست دینے کے لئے ہر ممکن کوشش کی ہے۔ وہ سٹیڈیم میں داخل ہوئے تو انہیں حیرت ہوئی کہ سٹیڈیم خان کے حامیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اصل میں جو چیز اہم تھی وہ خان کا سٹارڈم تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ تماشائیوں کو اس بات کی قطعاً پروا نہیں تھی کہ خان کے خلاف کیا کیا الزامات لگائے گئے ہیں۔ انہوں نے خان کی ٹیم کی حوصلہ افزائی کی اور پھر انہوں نے ناتجربہ کار سکواڈ کو اپنی آنکھوں کے سامنے گرتے ہوئے دیکھا۔ خان کی ٹیم میچ ہار گئی۔
لیکن جیتنے والوں کے لیے تالیاں بجانے کے لیے کوئی کھڑا نہیں ہوا۔ وہ گلے میں اپنے میڈل ڈالے سٹیڈیم سے باہر نکل گئے۔
اب جبکہ حریف ٹیم اپنی اننگز کھیل رہی ہے، موسم ان کے حق میں نظر نہیں آتا ہے۔ وکٹ بہت گھاس دار لگ رہی ہے، آؤٹ فیلڈ بہت سست ہے۔ بلے باز چاہے کتنا ہی زور کیوں نہ لگائے، گیند زیادہ دور تک نہیں جاتی، اور بدترین فیلڈرز کو بھی گیند کو پکڑنا مشکل نہیں ہوتا۔ اگرچہ خان کا فاسٹ بولنگ سکواڈ میچ سے باہر رہنے پر مجبور ہے، لیکن بلے بازوں کو درمیانی سپیڈ کے گیند بازوں اور اسپنرز کو سنبھالنا بھی بہت مشکل نظر آتا ہے۔ وکٹیں زیادہ کوشش کے بغیر گر رہی ہیں۔
اس لائیو کمنٹری کے وقت سکور بورڈ 16 اوورز میں 27 رنز دے کر 5 وکٹیں دکھا رہا ہے۔ اور پروجیکشن کے مطابق کھیلنے والی ٹیم 23 اوورز میں 67 رنز پہ فارغ ہو جائے گی۔
اگرچہ خان کو میدان سے دور بیٹھنے پر مجبور کیا گیا ہے، لیکن رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے چہرے پر مسکراہٹ کے ساتھ ریڈیو پر میچ سن رہے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ حریف ٹیم نے غلط دن، غلط پچ پر بیٹنگ کرنے کا انتخاب کیا ہے۔ کوچز اپنی ٹیم کی کارکردگی سے مایوس دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ سیاہ بادلوں کے چھٹنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ یعنی اننگز ختم ہونے میں صرف کچھ وقت ہی باقی ہے۔