ملک کی معروف مذہبی شخصیت اور مبلغ مولانا طارق جمیل جو کہ حال ہی میں اپنے کپڑوں کے برانڈ MTJ کے ساتھ کاروبار کی دنیا میں قدم رکھ چکے ہیں، نے کہا ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کی ضرورت نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم لوگ جمہوریت کے قابل نہیں۔ نیو ٹی وی کے پروگرام لائیو ود نصراللہ ملک میں گفتگو کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ ہمیں بطور قوم وہ شعور حاصل ہی نہیں جس کی جمہوریت کے لیئے ضرورت ہوتی ہے جس سے غلط اور صحیح کی تمیز ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ دیکھیئے نا کہ ایک جانب 10 بے وقوف کھڑے ہوں اور دوسری طرف ایک عقلمند ہو اور کہا جائے کہ دس بے وقوف ایک عقلمند پر اس لیئے بھاری ہیں اس لیئے ان کی بات مانی جائے گی کیوں کہ وہ تعداد میں زیادہ ہیں؟ یہ عجب بات ہے۔ جب ان سے میزبان نے پوچھا کہ متبادل راستہ و نظام کیا ہو تو ان کا کہنا تھا کہ یہ تو اللہ ہی نکالے گا کیوں کہ میں تو سیاستدان نہیں ہوں۔میزبان کے سوال پر کہ کہا جاتا ہے کہ جمہوریت میں آپ کام نہ کرنے والے کو نکال سکتے ہیں؟ نواز شریف کو نکالا، زرداری صاحب گئے، کام نہیں کریں گے تو عمران خان صاحب بھی جائیں گے۔ اس پر مولانا طارق جمیل نے کہا کہ کون نکلا ہے آج تک سب کی باریاں لگی ہوئی ہیں۔انہوں نے اپنےمرحوم چچا کا واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ ہمارے معاشرے میں ہی افراط و تفریط ہے۔ جمہوریت کا نظام یہاں کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔
اس سوال پر کہ کیا یہ حکومت کام کر پائے گی؟ مولانا نے کہا کہ ان کی نیت تو ٹھیک ہے لیکن مسائل بہت گھمبیر ہیں۔ تمام حکومتوں کے ساتھ بھی یہی مسئلہ درپیش تھا۔انہوں نے ایک متفرق سوال کے جواب میں کہا کہ جو کہتا ہے کہ تبلیغ دین کا مطلب دنیا تیاگ دینا ہے وہ غلط ہے۔ مجھے دیکھ لیجئے۔ میں نے کونسی دنیا چھوڑ دی؟ ہاں دین کا سبق دین و دنیا میں توازن قائم کرنے کا ہے۔
مولانا طارق جمیل اور تنازعات: کرونا وبا کو خواتین کی بے حیائی اور میڈیا کے جھوٹ کا نتیجہ قرار دینا
اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا ایک ہاؤس ہولڈ نام بن چکے ہیں۔ عمر، مسلک اور نسل کی تفریق سے بالا تر مولانا طارق جمیل کے مداح ہر جانب موجود ہیں۔ تاہم مولانا اس شہرت کے ساتھ ساتھ تنازعات میں بھی گھرے رہتے ہیں۔ جن میں سے اکثر ان کے درج بالا بیان کی طرح متنازعہ بیانات اور آرا کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
دور نہ بھی جائیں تو اپریل 2020 میں کرونا وبا کے آغاز میں وزیر اعظم عمران خان کی ٹیلی تھون میں مولانا کی اینٹری نے دھوم مچا دی تھی۔ وزیراعظم عمران خان کی احساس ٹیلی تھون میں شریک مولانا طارق جمیل نے پاکستان میں کرونا وائرس کے پھیلنے کا الزام بے حیا خواتین پر عائد کیا تھا اور کہا تھا کہ ملک میں بے حیا خواتین کی وجہ سے کرونا کی وبا پھیلی۔ انہوں نے کہا تھا کہ بے حیائی کو ختم کر کے اس وبا سے نجات مل سکتی ہے۔ پھر وہ میڈیا پر چڑھ دوڑے تھے۔ مولانا طارق جمیل نے ’احساس ٹیلی تھون‘ کے دوران دعا میں میڈیا کو تنقید نشانہ بنایا اور کہا کہ جتنا جھوٹ میڈیا پر بولا جاتا ہے کہیں اور نہیں بولا جاتا اور اس کی وجہ سے بڑے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک ٹی وی چینل کے مالک نے انھیں کہا کہ اگر میڈیا پر جھوٹ نہ بولا جائے تو میڈیا نہیں چل سکتا۔ سخت تنقید کے بعد مولانا طارق جمیل نے میڈیا سے معافی مانگ لی تھی تاہم خواتین سے وہ کبھی بھی معذرت خواہ نہیں رہے۔
مولانا کا کپڑوں کا فیشن برینڈ MTJ اور کمربند کنٹروورسی
بی بی سی کے مطابق طارق جمیل کے نام سے منسوب کمپنی ’ایم ٹی جے‘ کراچی میں رجسٹرڈ ہے۔ برانڈ کی لنکڈ اِن پروفائل پر لکھا گیا ہے کہ ’یہ ایک فیشن برانڈ ہے جو کوالٹی اور دیانتداری سے چلائی جائے گی' اور یہ ’ مولانا طارق جمیل کی خدمت خلق سے متاثر ہو کر قائم کی گئی ہے۔‘پروفائل کے مطابق کمپنی میں 50 سے 100 لوگ ملازمت کر رہے ہیں۔ کمپنی کی باقاعدہ ویب سائٹ ’ایم ٹی جے آن لائن‘ کو باقاعدہ طور پر متعارف نہیں کرایا گیا ہے۔اس برانڈ کے ذریعئے شلوار قمیض اور کُرتے فروخت کیے جائیں گے۔ تاہم ایک تنازعہ تب سامنے آیا جب ایم ٹی جے کے ٹیگ کے ساتھ ایک ناڑے یعنی ازار بند کی قیمت 500 روپے سے زائد درج تھی۔ اس موقع پر سوشل میڈیا صارفین نے مولانا کی وہ ویڈیوز شئیر کی جس میں وہ جائز منافع کمانے کی تلقین کر رہے تھے۔ تاہم انہوں نے اپنے برانڈ سے متعلق تمام اعتراضات کے جواب دیئے۔
مولانا طارق جمیل کا جواب
اپنی حالیہ ویڈیو میں مولانا طارق جمیل کا کہنا تھا کہ ’سنہ 2000 کے دوران انھوں نے فیصل آباد میں مدرسہ الحسنین کی بنیاد رکھی تھی۔ بعدازاں اس مدرسے کی 10 شاخیں مختلف شہروں میں قائم کی گئیں۔ یہاں ہمارے شاگرد پڑھا رہے ہیں اور تعلیم عربی میں دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'میں کاروبار پیسے بنانے کے لیے نہیں کر رہا، میں نے ساری زندگی پیسہ نہیں بنایا، ہمارا کاروباری ذہن ہی نہیں ہے اور ہم زمیندار لوگ ہیں اور جب سے تبلیغ میں لگا ہوں کاروبار نہیں کیا بس 1984 میں ایک بار کپاس کی فصل کاشت کروائی تھی'۔ان کا کہنا تھا کہ 'اس برانڈ سے کاروبار کا ارادہ نہیں ہے بلکہ اس کی کمائی ایم ٹی جے فاؤنڈیشن میں لگاؤں گا جس کے ذریعے اسکول اور ہسپتال بنانا چاہتے ہیں'۔معروف مبلغ نے کہا کہ 'برصغیر میں علما کا کاروبار یا تجارت کرنا عیب سمجھا جاتا ہے، نہ جانے یہ بات کہاں سے آگئی ہے، مولوی کا تصور لوگوں سے بھیک مانگنے والے کا بنادیا گیا ہے'۔