سینئر تجزیہ کار افتخار احمد نے کہا ہے کہ جو بات کرنے پر بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے نوجوان غائب ہو جاتے تھے، اس ففتھ جنریشن وار میں اب بڑے بڑے ہیش ٹیگوں کیساتھ چل رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب جمہوری راستے کو چھوڑ کر کوئی اور راستہ اپنایا جائے تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا جو آج ملک میں ہو رہا ہے۔ تاہم میں دکھی ہوں کہ میرے ملک کا ایک اہم ادارہ خراب ہو رہا ہے۔ آج وہ کام ہو رہا ہے جو 70 سالوں میں کوئی دشمن نہیں کر سکا۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں لانگ مارچ کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے اور ملک کے سیاسی معاملات پر اپنا تبصرہ پیش کرتے ہوئے افتخار احمد نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی معاملات میں دخل اندازی کا شوق ہی بڑا تھا۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کو ختم کرنے کی ان کے دل میں کہیں خواہش تھی جس پر سالہا سال بات چیت ہوتی رہی جس کے بعد ایک رستہ چنا گیا۔ اس میں ان کو اپنی مرضی کا ایک ہیرو ملا جو بے ایمان، چور اور کرپٹ نہیں تھا۔
افتخار احمد کا کہنا تھا کہ اس ہیرو پر اس قدر بھاری سرمایہ کاری کی گئی، اس کو سیاسی طور پر توانا کرنے کیلئے ہم جیسے متعدد لوگوں کو چُنا گیا جو اتنے مالدار ہو چکے ہیں کہ ان کو جو مرضی کہہ لیں اب ان کو کوئی پرواہ نہیں، اب وہی اس کی کیمپئن چلا رہے ہیں۔ ہم نے بہت سمجھانے کی کوشش کی لیکن اب بھگتیں۔ آپ نے جس شخص کو بنایا، اس کو ہی کنٹرول کرنا بس میں نہیں رہا، یہ سب کچھ ہونا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں اگر عام شہری کے طور پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو دیکھوں تو میری نظر میں عمران خان کی جانب سے توہین عدالت ہو چکی ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ میری بات میں اتنا وزن نہ ہو، اس وزن کو تلاش کرنے کیلئے ہی سپریم کورٹ یہ ساری کارروائی کر رہی ہے۔
سینئر صحافی نے اپنی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ سے درخواست کرکے اپنا احتجاج کرنے کیلئے جگہ مانگی لیکن پھر عدالت کے حکم کی بھی پرواہ نہیں کی۔ اب یہ بات جاننے کیلئے بھی سپریم کورٹ کو انفارمیشن کی ضرورت ہے تو پھر یہ اس کا حق ہے کیونکہ وہ ملک کی سب سے بڑی عدالت ہے۔ اسی سپریم کورٹ نے کھڑے کھڑے سابق وزرائے اعظم کو گھر بھیجا، اب دیکھتے ہیں کہ وہ اس اہم معاملے پر اور کتنی تحقیق کرنا چاہتی ہے۔
اس موضوع گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے رضا رومی کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں پتا کہ عدالت کیا کرے گی یا کچھ کرے گی بھی یا نہیں لیکن جب جتھے منتخب حکومت کو آ کر کہیں کہ ہم ان کو گرا دیں گے اور خود اعتراف کر لیا جائے کہ مسلح لوگ اس میں شامل تھے تو پھر طاقت کا استعمال ہی ریاست کے پاس آپشن ہوتا ہے۔
پروگرام میں شریک گفتگو نادیہ نقی کا کہنا تھا کہ اب عدالتیں طے کریں گی کہ کہاں جلسہ ہونا چاہیے، پولیس کو کس طرح کا رویہ اختیار کرنا چاہیے تو یہ مایوس کن ہے۔ سپریم کورٹ کا کام انصاف فراہم کرنا اور آئین کی تشریحات کرنا ہے۔ اگر اس طرح سے ایگزیکٹو کے معاملات میں دخل اندازی کی جائے گی تو انگلیاں اٹھیں گی۔
مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی حیثیت گائوں کی پنچایت جیسی نہیں کہ وہ لڑائی جھگڑوں میں بیچ بچائو کرانا شروع کردے بلکہ اس کا کام آئین پر عملدرآمد کرانا اور دیکھنا ہے کہ کون اس کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔