سینیٹ الیکشن پرسپریم کورٹ کا فیصلہ: دیر سے ہی سہی فیصلہ آئین کے مطابق ہوا

سینیٹ الیکشن پرسپریم کورٹ کا فیصلہ: دیر سے ہی سہی فیصلہ آئین کے مطابق ہوا
سپریم کورٹ آف پاکستان نے بالآخر فیصلہ دے دیا۔ صدارتی ریفرنس پر، کئی تجزیہ کاروں کے خیال میں، غیر ضرو6ری تاخیر کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ بہرحال آئین و قانون کی روشنی میں ہی دیا جس کے مطابق سینیٹ انتخابات خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہی ہوں گے۔ پاکستان تحریک انصاف حکومت پہلے تو ایک آئینی ترمیم لے کر آئی، جو کہ ظاہر ہے اس پولنگ کو اوپن کرنے کا واحد آئینی، قانونی اور جمہوری طریقہ تھا۔ لیکن پھر یہ اس کا صدارتی ریفرنس بنا کر سپریم کورٹ لے گئی۔ سینیئر قانون دانوں کا تو خیال تھا کہ یہ ریفرنس بالکل بے تکا ہے اور آئین اس حوالے سے بالکل واضح ہے لہٰذا سپریم کورٹ کو چاہیے کہ اسے entertain ہی نہ کریں۔ نیا دور ہی کے پروگرام ’خبر سے آگے‘ میں سینیئر قانون دان اور سابق اٹارنی جنرل پاکستان عرفان قادر نے اس معاملے پر کیا رائے دی تھی، سنیے:

  • تاہم، سپریم کورٹ نے اس ریفرنس کو سننے کا فیصلہ کیا۔ کئی دن تک اٹارنی جنرل خالد جاوید خان دلائل دیتے رہے۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو سننے کے لئے براہِ راست اس کے سربراہ سکندر سلطان راجہ کو بلایا۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن اس انتخاب کو بھی آئین کے اندر دیے گئے دیگر انتخابات کی طرح خفیہ رکھنے کے حوالے سے بالکل واضح ہے تو جسٹس اعجاز الاحسن اور چیف جسٹس گلزار احمد نے ان پر بھرپور جرح کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن تو یہاں تک کہہ گئے کہ اگر خفیہ پولنگ کی وجہ سے کسی جماعت کو اس کے تناسب سے کم یا زیادہ نشستیں ملیں تو پوری آئینی سکیم collapse کر جائے گی۔ لیکن الیکشن کمیشن ٹس سے مس نہ ہوا۔ سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی سے بھی جب سوال ہوا کہ اگر کسی جماعت کی صوبائی اسمبلی میں نشستیں ہوں آٹھ لیکن سینیٹ میں اس کو سینیٹ کی دو نشستیں مل جائیں تو کیا ہوگا تو ان کا جواب واضح تھا کہ جناب الیکشن ہو رہا ہے، ریاضی کا پرچہ نہیں۔ ہم سیاسی طریقے سے حکومتی اور غیر حکومتی اراکین سے بات چیت کرتے ہیں اور ووٹ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ سیاسی فیصلے سیاسی انداز میں ہی کیے جاتے ہیں۔


ابھی یہ کشمکش جاری تھی کہ اس دوران صدر عارف علوی کی جانب سے ایک آرڈیننس جاری کر دیا گیا جس میں اوپن بیلٹ کو سپریم کورٹ کے ریفرنس کے فیصلے سے مشروط کیا گیا تھا۔ بہت سے قانون دانوں، صحافیوں، یہاں تک کہ اپوزیشن کا بھی خیال تھا کہ عدالت اس کو اپنی توہین سمجھے گی اور اس بنیاد پر کہ عدالت کو lead کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، صدارتی ریفرنس کو مسترد کر دیا جائے گا لیکن اگلے روز سپریم کورٹ کے ججز نے خود سے اس آرڈیننس کی توجیہات بتانا شروع کر دیں تو یہ بہت سے لوگوں کے لئے حیرانی کا باعث تھا۔

کئی دن کی سماعت کے بعد بالآخر عدالت کا فیصلہ آیا تو اس میں واضح تھا کہ حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے دو سوالات کا جواب عدالت سے ان کے حق میں نہیں آیا۔ صدارتی ریفرنس میں سوال یہ اٹھایا گیا تھا کہ سینیٹ انتخابات آئین میں دیے گئے دیگر انتخابات کی طرح سے ہی ہوں گے یا یہ دیگر انتخابات کا طریقہ کار واضح کرنے والے آرٹیکل 226 کا اطلاق سینیٹ انتخابات پر نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے واضح ہے کہ یہ انتخابات آئین میں وضع کیے گئے طریقہ کار کے تحت ہی ہوں گے۔

دوسرا سوال جو اس سماعت کے دوران اٹھا، وہ یہ تھا کہ انتخابات اگر خفیہ پولنگ کے ذریعے بھی ہوں تو ان پر کوئی نام یا QR code وغیرہ لگا دیا جائے جس کے ذریعے بعد میں پتہ لگایا جا سکے کہ یہ ووٹ کس کو دیا گیا تھا۔ عدالت نے یہ معاملہ الیکشن کمیشن پر چھوڑ دیا۔ حکومت کی اس حوالے سے خواہش کیا تھی، یہ تو آئینی ترمیم کے مسودے سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے جس میں نہ صرف اوپن پولنگ کی بات کی گئی ہے بلکہ جو سیاسی جماعت کی مرضی کے مطابق ووٹ نہ دے اس کے خلاف کارروائی کی اجازت بھی پارٹیوں کو دینے کی بات ہوئی ہے۔ یعنی اس کے مطابق یہ واضح ہونا تھا کہ کس نے کس کو ووٹ دیا۔ اب حکومت الیکشن کمیشن سے مطالبہ کر رہی ہے کہ کم از کم الیکشن کمیشن کے پاس یہ اختیار ہونا چاہیے وہ دیکھ سکے کہ کون سا ووٹ کس کو دیا گیا۔

حکومت اس فیصلے کو اپنی فتح قرار دینے پر مصر ہے۔ فیصلہ آنے کے بعد کئی گھنٹے تک لگاتار ایک کے بعد ایک وزیر یا چند وزرا کا ٹولہ میڈیا پر آ کر پریس کانفرنس کر کے ائر ٹائم حاصل کرتا رہا تاکہ آزادانہ تبصرہ نگاری کی گنجائش ہی نہ بچے۔ لیکن فیصلے کی حقیقت اپنی پانچ ٹوئیٹس کی سیریز میں قانون دان اور تجزیہ نگار ریما عمر نے کھل کر بیان کر دی ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ:

سپریم کورٹ کے فیصلے کو عجیب طرح سے توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ عدالت نے صاف کہہ دیا ہے کہ آرٹیکل 226 پر حکومتی تشریح درست نہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ صدارتی ریفرنس بھی اڑ گیا جو کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط تھا۔ یہ درست ہے کہ سپریم کورٹ نے ریفرنس سے آگے جاتے ہوئے الیکشن کمیشن کو نصیحت کی ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کے ذریعے انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنائے۔ اس کو لیکن غلط انداز میں پیش کیا جا رہا ہے گویا نصیحت نہ ہو، الیکشن کمیشن کو پابند کیا گیا ہو۔ یہ تشریح نہ صرف غلط ہے بلکہ خطرناک بھی ہے:

کیا حکومت یہ چاہتی ہے کہ الیکشن کمیشن خفیہ بیلٹ کے لئے اپنے قاعدے میں تبدیلی کر لے؟ تو پھر کیا الیکشن کمیشن میرے اور آپ کے ووٹ کے لئے عام انتخابات میں بھی خفیہ پولنگ کا اصول ختم کر دے؟َ وہ لکھتی ہیں کہ حکومت نے درست طور پر آئینی ترمیم سے بات شروع کی، پھر آرڈیننس کے ذریعے الیکشن ایکٹ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی، اور اب وہ صرف الیکشن کمیشن کے قواعد تبدیل کرنے کی بات کر رہی ہے۔ آئینی ترمیم سے قواعد میں تبدیلی تک، کتنا گر گئے ہیں!