دیکھو تو سہی، سنو تو سہی

دیکھو تو سہی، سنو تو سہی
ہمارے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے حضور! ہم نہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی سنتے ہیں۔ بس پھر کیا ہوتا  ہے۔  پھر یہ ہوتا ہے کہ چاہے کوئی بھی ہو لیکن دو تین مصالحے استعمال کر کے ہم کو بس مطمئن کریں اور جی حضوری کریں کیونکہ یہ چاپلوسی اور چمچہ گیری اور جی حضوری ہم عزت سمجھتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ ضمیر کے قید میں ہوتے ہیں اور ضمیر اس کو بےجا جی حضوری کی اجازت نہیں دیتا ۔ 

 

کہا جاتا ہے کہ وقت پر زخم کا مرہم ہوتا ہے وقت پہلے ہی انسان کو کہتا ہے اور بار بار کہتا رہتا ہے کہ دیکھو تو سہی، سنو تو سہی! لیکن انسان کہاں سنتا ہے وقت کا چلو اگر ایسا ہوجائے کہ ہر اختلاف کو بالاۓ طاق رکھ کر چاہے وہ اختلاف مذہبی ہو یا سیاسی لیکن حقیقی معنوں میں بندہ بشر یعنی انسان بن کر ہر دوسرے انسان کو سنا جائے تو پھر میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ معاشرے میں عدم تشدد کا رجحان پیدا ضرور ہوگا لیکن خاص کر منصب کے لئے آسانی یہ ہوگی کہ زہریلے کیڑوں کو سائیڈ پر کرلیں۔ لیکن مجال ہے کہ انسان دیکھ بھی لے اور ساتھ میں سن بھی لے!

 

ایک حقیقی کہانی جو کچھ مدت پہلے کی ہے میں اپنے یونیورسٹی دوست کے ساتھ ڈیپارٹمنٹ سے موٹرسائیکل پر گھر واپسی کے لئے نکلا اور مجبوری میں صرف اس کو نہیں بلکہ باقی جتنے بھی سٹوڈنٹس جن کا راستہ یہی فٹ پاتھ پر ڈرائیو کرنا تھا کرنا پڑا۔ لیکن ہمارے ساتھ بدقسمتی یہ ہوئی جس وقت ہم فٹ پاتھ پر چل رہے تھے تو اس وقت فٹ پاتھ  پر ایک لڑکے کے ساتھ چار لڑکیاں جارہی تھی میں نے اپنے دوست سے کہا کہ ایک ہارن دے دوں تو یہ خود سائیڈ پر ہوجائینگے۔

 

میرے دوست نے ہارن دے دیا تو لڑکے نے ہارن کی آواز سنتے ہی پیچھے مڑ کر لفظی گولا باری شروع کی۔ یہ پیدل چلنے والے کے لئے ہے۔ موٹرسائیکل والوں کے لئے تو نہیں اور دو تین گالیاں دے دی تو اس نے موٹرسائیکل کو سائیڈ پر کھڑا کردیا۔ اور اس لڑکے سے کہا ہمیں یہ معلوم ہے کہ فٹ پاتھ صرف پیدل چلنے والے استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن ہم ابھی یہ مجبوری میں استعمال کررہے ہیں۔ آپ بتائیں آپ نے گالیاں کیوں دی اس لڑکے نے جب دوبارہ گالیاں دینے کی کوشش کی تو بات ہاتھا پائی تک پہنچی اور اسی اثناء میں کسی ڈیپارٹمنٹ کا پروفیسر آرہا تھا تو ہلکی سی ہاتھا پائی ہوگئی تو پروفیسر صاحب نے دونوں سے سٹوڈنٹ کارڈ ضبط کرلیے۔ اور دونوں کارڈز کچھ فاصلے پر کھڑے ایک نوجوان لیکچرر کے حوالے کر دئیے۔

 

ہم جب وہاں سے روانہ ہورہے تھے تو لڑکیوں نے لیکچرر سے اس لڑکے کے لئے چاپلوسی شروع کی اور یوں ہوا کہ لڑکیاں چاپلوسیوں میں کامیاب ہوئیں اور جب اس لڑکے کو اپنا سٹوڈنٹ کارڈ دیا گیا تو میں نے اپنے دوست سے کہا آپ یہاں انتظار کرلے یا اگر آنا ہے تو آپ نے سر کے سامنے کچھ بھی بولنا نہیں ہے۔ ہم نے بھی کوشش کی کہ کسی طریقے سے سر کو راضی کرلیا جائے اس وقت اس کے ٹیچر کے کچھ سٹوڈنٹس بھی آئے وہ لڑکے کہہ رہے تھے کہ یہ ٹیچر تو اتنا خوش مذاج اور خوش اخلاق ہے کہ کلاس اور کلاس سے باہر ہر کسی کی بات سنتا ہے لیکن پتہ نہیں آپ کے دوست کو کیوں سننا نہیں چاہتے۔

 

میں نے ان لڑکوں سے کہا چلیں آخری کوشش کرتے ہیں کیا پتہ کہیں مان جائیں۔ ہم ان کے پاس گئے تو وہ اپنے گاڑی کے شیشے کو صاف کرنے میں مصروف ہوگئے۔ میں نے سر سے کہا سر آپ دیکھیں تو سہی، ہم کو سنئے تو سہی! بس یہی کہہ دیا کہ آپ کے دوست کا سٹوڈنٹ کارڈ چیف پراکٹر کے پاس ہے وہاں جائیں اور اس کے ساتھ بات کرلیں۔ اور اس کے سٹوڈنٹس نے بھی اس کے ساتھ بات کی میرے دوست کے لئے اور میں نے پھر التجائی انداز میں سر کو مخاطب کیا کہ آپ سنیے تو سہی لیکن یوں ہوا کہ کچھ بھی نہ ہوا۔

 

ہمارے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ بس یہی ہے کہ ہم جب کسی کے حوالے سے اپنی ذہن سازی کرلیں۔ کہ یہ ایسا ہے،یہ ویسا ہے تو کتاب "The Secret" میں Law of attraction کے مطابق Like attract Like اور  bad attract bad بس پھر یہی ہوتا ہے کہ کوئی ہماری نظروں میں برا بن جائے چاہے وہ حقیقت میں برا ہو بھی نہ تو پھر بھی ہم اس کو ساری زندگی کے لئے اسی برے پیمانے پر ناپنے لگ جاتے ہے۔

 

بس اچھے اور برے کا معیار ہم نے یہ بنایا ہوا ہے کہ کوئی بھی کہی انجانے میں کوئی غلط کرلیں اور ضمیر کی وجہ سے غیر ضروری جی حضوری نہ کریں تو پھر ہم نہ اس کو اس کے اصل انداز میں دیکھتے ہیں اور نہ ہی سنتے ہیں اور اس کے برعکس اگر کوئی ذیادہ بے جا جی حضوری کریں تو پھر ہم اسی دیکھتے بھی ہیں اور سنتے بھی۔!