سندھ کا الیکشن جائزہ: جی ڈی اے ماضی کے پیپلز پارٹی مخالفین پر ہی مشتمل سہی مگر مقابلہ آسان نہ ہوگا

سندھ کا الیکشن جائزہ: جی ڈی اے ماضی کے پیپلز پارٹی مخالفین پر ہی مشتمل سہی مگر مقابلہ آسان نہ ہوگا
پاکستان کے قیام کے 23 سال بعد عام لوگوں کو بالغ رائےدہی کے بنیاد پر ہر21 سالہ مرد اور عورت کو ووٹ دینے کا حق دیا گیا یعنی آج سے 48 سال قبل پاکستانی عوام نے پہلی بار ووٹ کا حق استعمال کیا۔ 1970 اس پہلے انتخابات سے صرف 3 سال پہلے ذوالفقار علی بھٹو کی بنائی ہوئی پاکستان پیپلزپارٹی نے مغربی پاکستان سے واضح کامیابی حاصل کی اور آج تک وہ پارٹی پاکستان کی سب سے بڑی منظم سیاسی جماعت کے طور پر جانی جاتی ہے جبکہ چناؤ کے تناظر میں اس وقت سندھ کی کامیاب ترین پارٹی ہے۔

پیپلز پارٹی آج تک سندھ سے انتخاب نہیں ہاری

پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنے قیام کے بعد 1970 سے 2013 تک ہونے والے 10 انتخابات میں سے 9 میں حصہ لیا (1985 میں ہونے والے غیرجماعتی انتخابات میں ایم آر ڈی تحریک کے فیصلے کی روشنی میں حصہ نہیں لیا تھا)۔ پاکستان پیپلز پارٹی ہر بار سندھ میں سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ لیکن ان 9 انتخابات کے بعد انہیں صرف 6 مرتبہ حکومت بنانے دی گئی۔ اس کے برعکس 3 مرتبہ (ایک ووٹ رکھنے والے) جام صادق علی، ارباب رحیم، سید مظفر شاہ اور علی محمد مہر جیسے افراد کو کم نشستیں جیتنے والی سیاسی جماعتوں کو یکجا کر کے سندھ کی وزارت اعلیٰ کا منصب سونپا گیا۔

دوسری طرف 50 سال سے پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کی واحد نمائندہ پارٹی رہی ہے جب کہ 1988 سے سندھ کی دوسری جماعت متحدہ  قومی موومینٹ (ایم کیو ایم) بڑے شہروں، خاص طور پر کراچی اور حیدرآباد، کی نمائندہ جماعت رہی ہے۔

پیپلز پارٹی مخالفین اس بار جی ڈی اے کے پلیٹ فارم پر متحد

اس بار بھی پیپلز پارٹی کے سامنے ایک بڑا اتحاد سامنے آیا ہے۔ غلام مرتضیٰ جتوئی نے تو اپنے والد کی 1986 میں لاہور میں بنائی گئی نیشنل پیپلز پارٹی کو بھی مسلم لیگ نواز میں ضم کر دیا لیکن وقت کے تقاضوں کے مد نظر جب میاں نواز شریف پر کڑا وقت آیا تو دونوں خاندانوں (مورو کے جتوئی اور پیرپگاڑہ)  نے مسلم لیگ نواز میں رہتے ہوئے اور وفاقی وزارتیں رکھتے ہوئے نواز شریف کو بتائے بغیر غلام مرتضیٰ جتوئی نے اپنی نیشنل پیپلزپارٹی کو الیکشن کمیشن میں دوبارہ رجسٹرڈ کروا دیا اور پیر پگاڑہ سے مل کر گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس ( جی ڈی اے) کو بھی الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ کروایا۔

جماعتیں تو چار ہیں مگر انتخابی اتحاد بہت بڑا ہے

گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس میں صرف 4 جماعتیں شامل ہیں جن میں پاکستان مسلم لیگ فنکشنل، نیشنل پیلزپارٹی، عوامی مسلم لیگ (ڈاکٹر ارباب رحیم) اور پاکستان پیپلزپارٹی ورکرز (صفدرعباسی) کی پارٹیاں شامل ہیں۔ لیکن سندھ میں موجودہ انتخابی عمل میں پیپلزپارٹی مخالف ہر جماعت اور شخصیت اس اتحاد میں شامل ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس پ پ کے خلاف سندھ میں سب سے بڑا اور مضبوط اتحاد ہے۔

جی ڈی اے نے کہاں کہاں، اور کیسے کیسے پیپلز پارٹی مخالفین کو اپنے ساتھ ملایا

الیکشن میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے جن جماعتوں کے ساتھ اتحاد کیا ہے ان میں بدین کے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا، فہمیدہ مرزا، حسنین مرزا، سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سید جلال محمود شاہ ان کے چھوٹے بھائی سید زین شاہ، قومی عوامی تحریک کے ایازلطیف پلیجو (یاد رہے  کہ ایاز لطیف پلیجو اپنی پارٹی الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ نہیں کروا سکے)، ڈاکٹر قادر مگسی بھی 25 سال سے قائم اپنی پارٹی سندھ ترقی پسند پارٹی کو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ نہیں کروا سکے۔ ان کی پارٹی بھی پورے سندھ کے 20 حلقوں سے کار کے نشان پر الیکشن لڑ رہی ہے۔ انہوں نے بھی سندھ میں کچھ نشستوں پر گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے امیدواروں کی حمایت اور اپنے امیدواروں کو ان کے حق میں دستبردار کروایا ہے۔ یہاں تک کہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس  نے سندھ میں کئی حلقوں سے متحدہ مجلس عمل کے ساتھ انتخابی اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمینٹ کی ہے۔ پہلی مرتبہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے ایم کیو ایم (پاکستان) کے ساتھ کراچی اور اندرون سندھ کے حلقوں میر پور خاص اور خاص طور پر نواب شاہ کے قومی اسمبلی کے حلقے 213 جہاں سے پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری امیدوار ہیں وہاں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہے اور ان کے امیدوار رؤف صدیقی نے جی ڈی اے کے امیدوار سردار شیر محمد رند کے حق میں دستبردار ہو کر انتخابات میں شہری ووٹ ڈلوانے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ دلچسپ بات کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے بھی پی ٹی آئی جیسی کٹر مخالف جماعت کی کئی حلقوں پر حمایت کی ہے اور لاڑکانہ سے پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے سامنے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ڈاکٹر راشد محمود سومرو کے حق میں تحریک انصاف کی خاتون امیدوار حلیماں بھٹو کو دستبردار کروایا ہے۔

تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ صحافی بھی سرگرم

سندھ کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ سندھی میڈیا کے مضبوط گروپ (کاوش میڈیا گروپ) کے مالک علی قاضی نے اپنی سیاسی جماعت تبدیلی پسند پارٹی کو رجسٹرڈ کروایا ہے اور حیدرآباد ضلع سے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی ایس 63 سے پاکستان پیپلزپارٹی کے کراچی سینٹرل جیل میں قید امیدوار شرجیل انعام میمن کے خلاف انتخاب لڑ رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آخری وقت پر پاکستان تحریک انصاف کے مضبوط امیدوار خاوند بخش جہیجو (جس نے 2013 کے انتخابات میں 20 ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے) کو علی قاضی کے حق میں دستبردار کروایا گیا ہے۔

یہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف بننے والا سب سے مظبوط اتحاد ہے

سندھ کی دیگر قوم پرست جماعتوں، خاص طور پر جئے سندھ قومی محاذ (بشیر خان قریشی)، نے بھی پورے سندھ میں پیپلزپارٹی مخالف امیدوارں کی حمایت کی ہے۔ پورے سندھ میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے پاکستان تحریک انصاف کے مضبوط امیدواروں کے سامنے کوئی بھی امیدوار کھڑا نہیں کیا۔ یہاں تک کہ کراچی اور حیدرآباد کے علاوہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے میر پور خاص اور دوسری نشستوں پر ایم کیو ایم کے ساتھ بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہے۔ اسی لئے کہا جا سکتا ہے کہ اس 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں سارے پیپلز پارٹی مخالف ایک ساتھ ہیں اور یہ سندھ میں پ پ کے خلاف سب سے زیادہ مضبوط اور متحد اتحاد ہے۔

کئی سابق وزرائے اعلیٰ اتحاد میں شامل

گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس میں آدھے سے زیادہ سندھ کے سابق وزرائے اعلیٰ شامل ہیں جن میں غوث علی شاہ، مظفر شاہ، لیاقت علی جتوئی، ڈاکٹر ارباب غلام رحیم، ممتاز علی بھٹو (ان کا بیٹا امیر بخش بھٹو) اور جام صادق علی کے بھتیجے جام ذوالفقار کی بھی گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے حمایت کی ہے۔

دوسری طرف اس مرتبہ سوشل ڈیموکریٹک گروپ نے بھی سندھ کے 20 سے زائد حلقوں پر پ پ کی مخالفت میں امیدواروں کی حمایت کی ہے۔ مجموعی طور پر اس بار کے انتخابات کے نتائج 2013 کی نسبت کافی دلچسپ آنے کی توقع ہے۔ پیپلزپارٹی کے مخالف اتحاد بننا کوئی حیران کن بات نہیں۔ البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کے 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کو مقابلے کا سامنا کرنا ہوگا۔

مصنف کراچی سے تعلق رکھنے والے صحافی ہیں اور مختلف اخبارات کے لئے لکھتے رہے ہیں۔