فیض آباد دھرنا کیس: سپریم کورٹ نے وزارت دفاع، آئی بی، پی ٹی آئی کی نظر ثانی درخواستیں خارج کر دیں

عدالتی حکمنامے میں بتایا گیا کہ اٹارنی جنرل نے کہا وہ انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت کمیشن تشکیل دینے کی تجویز دیں گے۔ اٹارنی جنرل کو کمیشن کے قیام کیلئے وفاقی حکومت کو تجویز دینے کیلئے وقت فراہم کرتے ہیں۔حکومت اگر رضامند ہوئی تو کمیشن بنا کر نوٹیفکیشن پیش کرے۔ کمیشن کے ٹی او آرز بالکل واضح ہونے چاہیں۔

فیض آباد دھرنا کیس: سپریم کورٹ نے وزارت دفاع، آئی بی، پی ٹی آئی کی نظر ثانی درخواستیں خارج کر دیں

سپریم کورٹ نے وزارت دفاع اور انٹیلی جنس بیورو(آئی بی) کی دھرنا نظر ثانی کیس کی درخواستیں واپس لینے کی بنیاد پر خارج کر تے ہوئے سماعت 15نومبر تک ملتوی کر دی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی سماعت کی جس میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللّٰہ بھی شامل تھے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوایا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ حکومت نے عدالت کے فیصلے کو سنجیدہ نہیں لیا۔ آئی بی، وزارت دفاع اور   پیمرا نے نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی استدعا کی۔ وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن نے بھی نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی استدعا کی۔
 عدالتی فیصلے کے مطابق وزارت دفاع اور آئی بی کی نظر ثانی درخواستیں واپس لینے کی بنیاد پر خارج کی جاتی ہیں جبکہ پی ٹی آئی کی نظر ثانی درخواست بھی واپس لینے کی بنیاد پر خارج کی جاتی ہے۔ پیمرا نے بھی نظر ثانی کی درخواست واپس لینے کی استدعا کی۔   پیمرا کے وکیل حافظ ایس اے رحمان نے کہا کہ انہیں سابق چیئرمین پیمرا کا جواب ابھی ملا ہے اور چیئرمین پیمرا سلیم بیگ نے کہا کہ ہم نے عمل درآمد رپورٹ جمع کرا دی ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے بیان حلفی جمع کرایا جس میں ایک انفرادی شخص اور ان کے نامعلوم ماتحت اہکاروں پر سنگین الزامات عائد کیے۔ ابصار عالم نے جس انفرادی شخص پر الزام لگایا وہ ہمارے سامنے پیش نہیں ہے۔

حکمنامے کے مطابق اگر وفاقی حکومت انکوائری کمیشن تشکیل دیتا ہے تو ابصار عالم نے کہا کہ وہ پیش ہوکر بیان دیں گے۔ ابصار عالم نے کہا کہ جس شخص پر الزام لگایا اگر وہ جرح کرے تو بھی کارروائی کا حصہ بنوں گا۔ حکومتی تین رکنی کمیٹی مؤثر نہیں ہے۔ عدالت نے پوچھا کیا حکومتی تین رکنی کمیٹی کسی کو طلب کر سکتی ہے لیکن ہمیں اس کا تسلی بخش جواب نہیں ملا۔

عدالتی حکمنامے میں بتایا گیا کہ اٹارنی جنرل نے کہا وہ انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت کمیشن تشکیل دینے کی تجویز دیں گے۔ اٹارنی جنرل کو کمیشن کے قیام کیلئے وفاقی حکومت کو تجویز دینے کیلئے وقت فراہم کرتے ہیں۔حکومت اگر رضامند ہوئی تو کمیشن بنا کر نوٹیفکیشن پیش کرے۔ کمیشن کے ٹی او آرز بالکل واضح ہونے چاہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا وہ حکومت سے انکوائری کمیشن قائم کرنے کی سفارش کریں گے اور انہوں نے انکوائری کمیشن کے قیام کا نوٹیفیکیشن پیش کرنے کی مہلت مانگی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت فیصلہ تسلیم کرتی ہے اور عمل درآمد کے لیے تیار ہے۔ حافظ ایس اے رحمان وکیل پیمرا سے پوچھا کہ کسی عدالتی فیصلے کے حصے پر عمل ہوا۔ حافظ ایس اے رحمان نے کہا کہ وہ دلائل نہیں دینا چاہتے۔

حکم نامے کے مطابق ہم نے چیئرمین پیمرا سے پوچھا نظر ثانی دائر کرنے کا فیصلہ کس کا تھا۔ چیئرمین پیمرا نے متضاد جوابات دیے۔ پہلے کہا اتھارٹی نے نظر ثانی دائر کی پھر کہا زبانی اتھارٹی نے کہا تھا۔