وزیراعظم صاحب آپ طالبان کے نہیں عوام کے ترجمان بنیں۔۔۔

وزیراعظم صاحب آپ طالبان کے نہیں عوام کے ترجمان بنیں۔۔۔
جب سے افغانستان میں طالبان نے اقتدار پر قبضہ کیا ہے پاکستان کی ہیت مقتدرہ اور وزیراعظم عمران خان مسلسل ایک ہی راگ الاپنے میں مگن ہیں کہ دنیا طالبان کی حکومت کو تسلیم کرے اور افغانستان کی مراعات جن کو طالبان کے قبضے کے بعد بند کر دیا گیا تھا ان کو فوری بحال کیا جائے۔ جبکہ دوسری طرف امریکہ کے سنیٹ میں ایک بل پیش ہونے کی اطلاعات ہیں جو پاکستان پر افغانستان کے معاملات میں مداخلت کرنے پر کچھ پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ہمارے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید نے تو کابل کے پانچ ستارہ ہوٹل میں چائے کے کپ پکڑے ایک تصویر بھی جاری کر دی تھی ،یوں لگتا ہے جیسے امریکہ وزیراعظم عمران خان کے انکار پر سخت ردعمل ظاہر کرنے کے ارادے میں ہے۔

جہاں تک وزیراعظم عمران خان تعلق ہے وہ طالبان کے ساتھ ایک عجیب وغریب رومانس میں آج سے نہیں بلکہ سالوں پہلے سے مبتلا ہیں۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کے اجلاس سے ورچوئل خطاب کرتے ہوئے انہوں نے طالبان حکومت کی خوب وکالت کی ہے بلکہ یوں محسوس ہوا کہ جیسے پاکستان کا وزیراعظم نہیں بلکہ طالبان کا سفیر وہاں خطاب کر رہا تھا ۔ ابھی پاکستان نے طالبان کی حکومت کو باقاعدہ تسلیم نہیں کیا، نہ ہی کسی اور اسلامی ملک نے تسلیم کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان جوش خطابت میں یہ بھول جاتے ہیں کہ جدید دنیا طالبان کی حکومت کو کیوں تسلیم کرے؟ کیا وہ الیکشن جیت کر اقتدار میں آئے ہیں؟ انہوں نے تو ہتیھار کے زور پر قبضہ کرلیا ہے، یہ الگ بات ہے کہ پچھلے بیس سال میں امریکی افواج نے افغانستان کی سیکورٹی فورسز پر جو مالی سرمایہ کاری کی اور انکی جو جسمانی تربیت کی انہوں بالی ووڈ کے اس گیت کو سچ ثابت کیا 'افغان جلیبی معشوق فریبی'۔

پاکستانی ہیت مقتدرہ اور وزیراعظم عمران خان کا طالبان سے رومانس جدید دنیا کو ایک بھی ٹھوس دلیل دینے میں ناکام رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ طالبان بہت بدل گئے ،اجی کیا خاک بدلے ہیں اب تک کسی عورت اور اقلیت کے نمائندے کو حکومت میں شامل نہیں کیا۔ کچھ شہروں میں حجاموں کو داڑھی کے خط بنانے سے منع کر دیا ہے۔ سرکاری اداروں میں خواتین ملازمین ابھی تک نہیں جا سکیں جبکہ تمام ثفافتی سرگرمیوں پر پابندی عائد ہے۔
سنیما گھروں کو بند کر دیا گیا ہے، فنکاروں نے فاقہ کشی سے بچنے کے لیے پھل فروشی شروع کر دی ہے۔ تمام ملکی میڈیا پر پابندی عائد ہے، غیر ملکی میڈیا کو طالبان حکومت کے خلاف خبر لگانے کی اجازت نہیں۔ اور سب سے اہم بات کیا تحریک طالبان پاکستان اور افغانسان جو ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں انہوں نے ہمارے مفرور واپس کیے ہیں؟ کیا ہماری ہیت مقتدرہ اور وزیراعظم عمران خان پشاور سکول کے مجرم احسان اللہ وقاص کو بھول گئے ہیں؟ وہ ابھی تک افغانستان میں ہے۔

تحریک انصاف کی ایک خاتون رکن اسمبلی اس حد تک جذباتی ہوئیں کہ انہوں نےفرمایاکہ طالبان اب کشمیر بھی آزاد کرائیں گے۔ انہوں نے اپنی چھ لاکھ فوج پر عدم اعتماد کرتے ہوئے 70 ہزار طالبان سے یہ امید لگا لی۔ وہ 13 لاکھ بھارتی فوج کو ہرا دیں گے ،خدا اسیے ناقبت اندیش سیاست کاروں سے ہمیں محفوظ رکھے۔

ہماری ییت مقتدر اور وزیراعظم کو طالبان کی ہر جگہ وکالت سے اجتناب کرنا چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان آپ ایک منتخب وزیراعظم ہیں، پاکستان کی اکثریت نے آپ کو ووٹ دیا ہے۔ آپ ایک نیا پاکستان بنانے اپنی توانائیاں صرف کریں' آپ نے وبا کے دنوں میں شاندار کارکردگی دکھائی ہے۔ دُنیا آپکی کی حکمت عملی کی تعریف کر رہی ہے تین سال سے اپوزیشن آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ دوسال باقی ہیں اپنے ادھورے کام پورے کریں معاشی معاملات بہتر کریں۔ مہنگائی کم کرنے پر مزید توجہ دیں۔ آپ کو دنیا ایک وزیراعظم کے علاہ ایک ایماندار کپتان کے طور پر بھی جانتی ہے۔ آپ فئیر گیم کر کے فاتح بننے والے کپتان ہیں۔ آپ کو کس نے کہا ہے کہ ہمارے بچوں کے قاتلوں کی وکالت کریں ،آپ جن کی وکالت کر رہیں وہ تہذیب وتمدن کے دشمن ہیں، ثفافت کے دشمن ہیں، ادب ،شاعری ، موسیقی، فلم اور کھیلوں کے دشمن ہیں، جن کی دماغی سوچ یہ ہو کہ کابل یونیورسٹی سے ایک پی ایچ ڈی پروفیسر کو وائس چانسلر کے عہدے ہٹا کر ایک بی اے پاس کووائس چانسلر لگا دیں۔ جو اپنا ائیرپورٹ نہ چلا سکیں اور انہیں دوحہ سے سول ایوی ایشن کے بندے بلانے پڑیں انکی وکالت کرنے سے پہلے سو مرتبہ سوچیں وزیراعظم صاحب۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔