Get Alerts

پاکستان میں تھیٹر واہیات نائٹ کلب میں کیسے تبدیل ہو گیا؟

عثمان پیرزادہ نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ دنیا بھر میں تھیٹر شام 7 بجے شروع ہوتا ہے، 9 بجے ختم ہو جاتا ہے اور پھر 10 بجے نائٹ کلب شروع ہوتا ہے۔ جبکہ پاکستان میں تھیٹر شروع ہی 10 بجے ہوتا ہے کیونکہ ہمارا ملک ہی نائٹ کلب بن چکا ہے۔

پاکستان میں تھیٹر واہیات نائٹ کلب میں کیسے تبدیل ہو گیا؟

دنیا بھر میں فنون لطیفہ کی اصناف فلم، ٹی وی ڈراموں اور تھیٹر کو ذریعہ اظہار کا بہترین طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ ویسے تو ذریعہ اظہار فکشن، شاعری اور صحافت بھی آ جاتا ہے مگر فلم، تھیٹر، ٹی وی، ڈرامہ عام ناظرین کے لیے ہوتا ہے جبکہ ناول، افسانہ، شاعری ان طبقات کے لیے ہوتی ہے جو صاحب علم ہوتے ہیں۔

مگر ایک بات جو سمجھنے کی ہے دنیا بھر میں فلم، تھیٹر اور ٹی وی ڈراموں سے جو لوگ وابستہ ہوتے ہیں ان کا شمار اہل دانش میں ہوتا ہے۔ تھیٹر کی بات کریں تو ایک وہ تھیٹر ہے جو باقاعدہ تھیٹر ہال میں ہوتا ہے جہاں بڑے فنکار پرفارم کرتے ہیں۔ ایک سٹریٹ تھیٹر ہوتا ہے جس میں عام طور پر نئے فنکار ہی ہوتے ہیں۔ یہ ان کی تربیت کے زمرے میں بھی آتا ہے۔ اس کے بعد وہ تھیٹر ہال میں پرفارم کرتے ہیں۔ اگر دنیا بھر کی انقلابی تحریکوں کا مطالعہ کیا جائے تو وہاں عوامی آگاہی کے لئے سٹریٹ تھیٹر کیا جاتا ہے۔ متحدہ ہندوستان میں آزای کی تحریکوں، بنگال میں کرانتی کار سٹریٹ تھیٹر کرتے تھے جو بڑی عوامی بیداری کا سبب بنتا تھا۔

گئے دنوں کی بات ہے شہر شہر تھیٹر گروپس بھی جاتے تھے۔ ان میں کچھ بازی گر کرتب بھی دکھاتے جو ایک چھوٹا سا ناٹک بن جاتا تھا۔ اس وقت دنیا بھر میں تھیٹر ہال میں ہی ہوتا ہے جہاں اس ملک کے بڑے بڑے فنکار پرفارم کرتے ہیں۔ بھارت میں نانا پاٹیکر، نصیر الدین شاہ، منوج واجپائی، جیا بچن، شبانہ اعظمی جیسے فنکار تھیٹر کرتے رہتے ہیں۔ شبانہ اعظمی کی والدہ شوکت اعظمی تو باقاعدہ تھیٹر کرتی تھیں۔ پھر انہوں نے رائٹر ڈائریکٹر مظفر علی کی شہرہ آفاق فلم امراؤ جان ادا بھی کی تھی۔

قیام پاکستان کے بعد وطن عزیز میں باقاعدہ تھیٹر ہوا۔ کراچی میں خواجہ معین الدین، کمال احمد رضوی جیسے تھیٹر لکھنے والوں نے بڑا معیاری کام شروع کیا تھا۔ لاہور میں رفیع پیرزادہ جیسے عظیم ڈرامہ نگار تھیٹر سے وابستہ تھے۔ وہ ریڈیو کے بھی ڈرامہ نگار تھے جو ذریعہ اظہار کی ایک اصناف تھی۔ بدقسمتی سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تھیٹر رو بہ زوال ہوتا چلا گیا۔ دنیا بھر میں تھیٹر کو مقبولیت ملتی چلی گئی۔ بھارت آج بھی پرتھوی راج تھیٹر گروپ ہندی اردو میں ڈرامہ کر رہا ہے۔ دیگر زبانوں میں سینکڑوں کی تعداد میں تھیٹر ڈرامے ہوتے ہیں مگر بدقسمتی سے پاکستان میں ہر شعبے کی طرح تھیٹر بھی ختم ہوتا چلا گیا۔

صاحب علم مصنف، ڈائریکٹر اور اداکار عثمان پیرزادہ نے راقم کو ایک بار کہا تھا کہ دنیا بھر میں تھیٹر شام 7 بجے شروع ہوتا ہے اور 9 بجے ختم ہو جاتا ہے۔ 10 بجے نائٹ کلب شروع ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں تھیٹر شروع ہی 10 بجے ہوتا ہے کیونکہ ہمارا ملک ہی نائٹ کلب بن چکا ہے۔

پاکستان میں تھیٹر میں ایک قسم کامیڈی تھیٹر کی تھی جو معین اختر، عمر شریف اور سہیل احمد جیسے بڑے اداکار پرفارم کرتے تھے۔ تب تک تو معاملہ ٹھیک تھا مگر فلم انڈسٹری کی ٹھکرائی ہوئی ڈانسروں نے تھیٹر کو مجرہ گاہ بنا دیا اور ان کے ساتھ تیسرے درجے کے بھانڈوں نے گھٹیا ترین جگت بازی شروع کر دی تو پھر تھیٹر ایک واہیات قسم کے نائٹ کلب میں تبدیل ہو گیا۔ آج یہ عالم ہے کہ اپنی گھٹیا ترین شکل میں دکھایا جا رہا ہے جہاں شائقین اور تماشائی نہیں بلکہ تماش بین آتے ہیں۔

اس مایوس کن دور میں بھی کراچی میں انور مقصود اور احمد شاہ، لاہور میں شاہد محمود ندیم کا اجوکا تھیٹر، رفیع پیرزادہ تھیٹر گروپ اور راولپنڈی اسلام آباد میں ولیم پرویز جیسا تھیٹر لکھنے والا اپنے حصے کی شمعیں روشن کر رہے ہیں مگر یہ بہت تھوڑا ہے۔ اس کو جب تک ریاستی سطح پر پرموٹ نہیں کیا جائے گا تب تک کچھ نہیں ہو گا۔

بدقسمتی سے ہماری ریاستی ترجیحات اس وقت اپنے ہی عوام پر ریاستی جبر کرنے، لاپتہ افراد کی تعداد میں اضافہ کرنا، اہل قلم اور صحافت پر قدغن لگانے، نیوز چینلز پر کالے قانون کا استعمال کرنا ہی رہ گیا ہے لہٰذا فنون لطیفہ کا خدا ہی حافظ سمجھیں۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔