پاکستانی سیاست کے تناظر میں یہ کہا جائے کہ اختتام پذیر ہوتے رواں عشرے کے آخری پانچ سالوں میں احتساب کی طلاطم خیر موجوں نے ملک میں افراتفری پھیلا رکھی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ اب تو یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہ گئی کہ احتساب کا یہ نعرہ دراصل سیاست کے دریا میں مقتدرہ کے پسندیدہ کیپٹن آف شپ کو مہیا کردہ ایک مضبوط چپو تھا جس کی مدد سے وہ ہر باد مخالف کو ٹھکانے لگا سکے۔ یہ ڈھکی چھپی تو اس لئے بھی نہیں کہ اب تو اسلام آباد ہائی کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ اور سپریم کورٹ سے لے کر لاہور ہائی کورٹ تک عدلیہ بھی پکار اٹھی ہے کہ یہ احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین کو پار لگایا جا رہا ہے۔
لیکن جیسے کہتے ہیں کہ سیاست تو ہمیشگی کا کھیل ہے۔ گویا یہاں حتمی کچھ نہیں ہوتا۔ کچھ عمل ایسے بھی کرنے پڑتے ہیں کہ جن کا پھل طویل عرصے تک حالات کے تغیر کے نتیجے میں پیدا ہوئی آب و ہوا میں پکنے کے بعد ہی ملتا ہے اور ثابت کرتا ہے کہ باغبان کا اس وقت کا صبر، ہنر اور تدبر بحیثیت مجموعی درست تھا یا نہیں۔
پاکستان کے سیاسی منظر میں بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ احتساب کا نعرہ لگانے والے اور اس نعرے کو ریاستی عمل کا حصہ بنانے والوں کے نشانے پر اس وقت ملک کے وزیر اعظم نواز شریف تھے۔ سی پیک کا آغاز تھا۔ ملک میں تیزی سے بجلی گھر لگ رہے تھے اور سڑکوں کا جال بچھ رہا تھا۔ دھرنے ہو چکے تھے اور حکومت بچ چکی تھی۔ کہ پاناما پیپرز کا دھماکہ ہو گیا۔ ہر طرف سے رسیدیں دکھاؤ، رسیدیں دکھاؤ کی صدائیں تھیں، سپریم کورٹ میں کیس چلا۔ جے آئی ٹی بنی۔ درجنوں پیشیاں ہوئیں۔ نواز شریف کی حکومت برخاست ہوئی۔
اس وقت ن لیگ کی جانب سے بار بار یہ کہا گیا کہ یہ نواز شریف کی حکومت کو گرانے اور ملکی ترقی کو روکنے کی سازش ہے۔ اسے امریکی سازش سے بھی جوڑا گیا جو کہ سی پیک کے خلاف ہونا تھی۔ تاہم، تحریک انصاف کی جانب سے اسے اپنی کرپشن بچانے کے لئے سی پیک اور حکومتی ناگزیری کے پیچھے چھپنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے ن لیگ کے بیانیے کو مکمل طور پر رد کردیا گیا۔ وہ علیحدہ بات ہے کہ ایک حکومت کے گرنے کا منفی اثر جو ملکی معیشت اور سیاست پر آیا وہ آج تک سنبھالے نہیں سنبھل رہا۔ اسی اثنا میں چند سال مزید گزرے اور ایک حاضر سروس جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر بے نامی اثاثہ جات کے حوالے سے ایک ریفرنس فائل کر دیا گیا۔ قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ عدالتوں میں پیش ہوتے رہے۔ ریفرنس میں سے تو کچھ نہ نکلا لیکن اہلیہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے متعلق معاملہ ایف بی آر کے حوالے ہوا۔ ان کی اہلیہ سرینہ عیسیٰ آج بھی پیشیاں بھگت رہی ہیں اور اس معاملے میں بھی تحریک اںصاف سے جڑے لوگ یہ کہتے رہے کہ رسیدیں دکھاؤ اور یہ بھی کہ ججز کسی احتساب سے بالا تر تو نہیں۔
پھر وقت کا پہیہ گھوما اور صحافی احمد نورانی نے ایک رپورٹ کے ذریعے امریکی محکمہ جات سے حاصل شدہ دستاویزات کے ساتھ یہ دعویٰ کر دیا کہ عاصم باجوہ کے بھائیوں، اہلیہ اور بچوں کی چار ممالک میں 99 کمپنیاں، 130 سے زائد فعال فرنچائر ریسٹورنٹس اور 13 کمرشل جائیدادیں ہیں، جن میں سے امریکہ میں دو شاپنگ مالز بھی ہیں۔ ان کے اثاثوں کی مالیت اربوں روپیہ ہے اور یہ تقریباً بیس سال کے عرصے میں بنائے گئے۔
اب عالم یہ ہے کہ وہی تحریک انصاف اور ان کے حواریوں کی زبانیں گنگ ہیں۔ مین سٹریم میڈیا پر اس خبر کے حوالے سے چوں بھی نہیں کی گئی۔ جیو، دنیا، اے آروائی، سما، ڈان کسی بھی چینل کو دیکھ لیں، ان کے رن ڈاؤن میں اس خبر کا شائبہ تک بھی نہیں ہوگا۔ الٹا اے آر وائے نے تو احمد نورانی پر غداری کے الزامات لگا دیے۔
سوشل میڈٰیا البتہ بھرا پڑا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ وہ تمام لوگ جو احتساب کو مقدم جانتے تھے، جن کا ایمان تھا کہ شخصیات کے آنے جانے سے کسی منصوبے اور کسی ملک پر کوئی اثر نہیں پڑتا چاہے وہ وزیر اعظم ہی کیوں نہ ہو، ان کو اچانک سی پیک کے خلاف سازش دکھائی دینے لگی ہے۔
لیکن مریم نواز جب آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنے والد کی پیشی سے استثنیٰ کی درخواست کی سماعت پر آئیں تو انہیں جہاں کارکنوں کے درمیان پرمسرت دیکھا گیا وہیں انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں ڈنکے کی چوٹ پر عاصم سلیم باجوہ سے رسیدیں دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کی وطن سے روانگی یا پھر لیگی رہنماؤں کے جیلوں سے چھوٹنے پر جس احتسابی بیانئے کو نقصان کی بات وہ کرتے ہیں، کیا اسے نقصان ان کے مشیر کے اثاثہ جات کے سامنے آنے پر نہیں ہوا؟
اب جب کہ مریم نواز نے اسے سیاسی بیانیئے میں استعمال کیا ہے اس کے بعد امکان ہے کہ حکومتی بنچوں کو بھی ایکشن دکھانا ہوگا کہ جو اصول نواز شریف اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بار طے ہو گئے اور جن پرخار راستوں سے وہ گزرے، اس نے سیاسی راہ گزر پر ایسے نقوش چھوڑے ہیں کہ جن سے اب مفر ممکن کم ہی نظر آتا ہے۔ اور پھر یہی کہ گویا یہاں حتمی کچھ نہیں ہوتا۔ کچھ عمل ایسے بھی کرنے پڑتے ہیں کہ جن کا پھل طویل عرصے تک حالات کے تغیر کے نتیجے میں پیدا ہوئی آب و ہوا میں پکنے کے بعد ہی ملتا ہے اور ثابت کرتا ہے کہ باغبان کا اس وقت کا صبر، ہنر اور تدبر بحیثیت مجموعی درست تھا یا نہیں۔