سیاست میں مذہب کی آمیزش کے نتائج ہمارے سامنے ہیں

سیاست میں مذہب کی آمیزش کے نتائج ہمارے سامنے ہیں
[gap height="10"]

(عبدل مجید عابد)

[gap height="10"]

پاکستان کی تاریخ میں بریلوی اسلام کا کردار قابل ذکر ہے۔ تحریک پاکستان کے دوران دیوبندی علماٴ کی اکثریت نے پاکستان کی مخالفت لیکن بریلوی علماٴ اور مشائخ نے مسلمانوں کے لئے ایک نئے وطن کے مطالبے کی بھرپور حمایت کی۔ حمزہ علوی کے مطابق تحریک خلافت نے دیو بندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے علماٴ کے لئے عملی سیاست میں حصے کا راستہ کھولا۔ قیام پاکستان کے وقت پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان میں بسنے والے زیادہ تر مسلمان بریلوی اور صوفی اسلام کے پیروکار تھے۔ اس نقطہ نظر کے ماننے والے مسلمان مقامی روایات کے حامل تھے جن میں مزاروں پر حاضری، منتوں مرادوں کے لئے پیروں سے رجوع کرنا، میلاد کی محافل کا اہتمام شامل تھے ۔ یہ مسلمان دیگر فرقوں کی نسبت مذہب کے معاملے میں کم کٹر تھے اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی جانب برداشت کا رویہ رکھتے تھے۔ اس فرقے کی بڑھوتری جاگیرداری نظام کے سائے میں ہوئ لہٰذا یہ دو نظام ایک دوسرے کے مددگار تھے۔ پاکستان کی تاریخ کی نمایاں مذہبی جماعتوں کا تعلق دیوبندی فرقے سے تھا اور اسی کی دہائ میں جب ریاست نے مدرسوں کو جہاد کی فیکٹریاں بنانے کا کام شروع کیا تو بریلوی مدرسوں کو اس مشق سے دور رکھا گیا۔سیاست دانوں میں بھٹو خاندان نے لال شہباز قلندر کا جھنڈا بلند کیا اور جنرل ضیاٰ نے بریلوی مشائخ سے دوستانہ تعلقات قائم رکھے۔





نوے کی دہائ میں فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا تو اس میں بریلوی جماعتیں شریک نہیں تھیں۔ ریاست کی عدم توجہی اور دیوبندی گروہوں کی جانب سے بڑھتے ہوئے تشدد کے باعث بریلوی زعماٴ نے کراچی کی سطح پر تنظیم سازی کا آغاز کیا (اور سنی تحریک کا اجرا ہوا)۔سنی تحریک نوے کی دہائ میں کراچی کے تاجر طبقے میں مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ سنی تحریک کی تمام اعلیٰ قیادت لیکن سنہ 2006میں ایک اجلاس کے دوران بم دھماکے کا شکار ہو گئ۔نو ستمبر 2001کے بعد پاکستانی قیادت امریکہ اور دنیا کو ایک روشن خیال چہرہ دکھانا چاہتی تھی۔ اس منصوبے کے لئے پاکستانی حکومت اور امریکہ کی جانب سے پہلی دفعہ بریلوی گروہوں اور زعماٴ کی پشت پناہی کی گئ۔ مشرف حکومت کی جانب سے نیشنل صوفی کونسل قائم کی گئ جب کہ رینڈ کارپوریشن نے اپنی بیشتر رپورٹوں میں صوفی اسلام کو قدامت پرستی کے خلاف مغرب کا قدرتی حلیف قرار دیا۔ امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے سنی اتحاد کونسل کو طالبان مخالف ریلیاں نکالنے کی مد میں چھتیس ہزار ڈالر دیے گئے۔ ان اقدامات کا مقصد دیوبندی گروہوں کے جہاد موافق نظریات کا توڑ کرنا تھا۔

سنہ 2011کے آغاز میں سلمان تاثیر کو مبینہ گستاخی رسولؐ کی بنا پر ان کی حفاظت پر مامور ممتاز قادری نے دن دہاڑے قتل کیا تو بریلوی تحریک کو ایک ایسا ایشو مل گیا جس کے گرد ایک عوامی تحریک شروع کی جا سکے۔ مشرف اور امریکی پالیسی ساز یہ حقیقت سمجھنے میں ناکام رہے کہ دیو بندی گروہوں کے لئے جو حیثیت جہاد کے نعرے کی ہے، بریلویوں کے نزدیک وہی حیثیت گستاخی رسولؐ کی ہے۔ اس موضوع کی بنیاد پر شروع ہونے والی تحریک فیض آباد دھرنے پر منتج ہوئ ۔کیا بریلوی یا صوفی اسلام مذہب میں شدت پسندی یا قدامت پرستی کو چیلنج کر سکتا ہے؟ تاریخ دان ڈاکٹر فرزانہ شیخ کے مطابق صوفی اسلام میں باقی فرقوں کی مانند شدت پسندی اور قدامت پرستی کا مادہ موجود ہے اور محض بلھے شاہ کی شاعری اس قابل نہیں کہ طالبان اور دیوبندی اسلام کا مقابلہ کر سکے۔ سیاست میں مذہب کی آمیزش کے نتائج ہمارے سامنے ہیں اور اقبال کے شعر کے مطابق ہم دین ملا، فساد فی سبیل اللہ کے دور میں جی رہے ہیں۔