ضلع کیچ بلوچستان کے باقی علاقوں کی نسبت زیادہ لبرل اور روشن خیال علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہاں کی ترقی پسند سیاست بھی ہے۔ حالیہ مردم شماری کے مطابق اس ضلع کی کل آبادی 10 لاکھ 60 ہزار 600 افراد پر مشتمل ہے۔ اس میں سے خواتین ووٹرز کتنی تعداد میں ہیں اور گذشتہ انتخابات میں ان کی نمائندگی کتنی تھی، اس سلسلے میں ہم نے رائٹ ٹو انفارمیشن کے تحت ضلعی الیکشن آفیسر سے معلومات طلب کیں۔ الیکشن کمیشن آفس تربت کیچ کے ضلعی آفیسر محمد بلوچ کے مطابق اس وقت مرد ووٹرز کی تعداد 1 لاکھ 46 ہزار 379 جبکہ خواتین کی تعداد 1 لاکھ 19 ہزار 460 ہے۔ ان کے مطابق گزشتہ الیکشن میں مجموعی طور پر خواتین کا ٹرن آؤٹ 39 فیصد جبکہ مرد ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 56 فیصد تھا۔
2018 کے الیکشن میں متعلقہ محکمہ کی دی گئی معلومات کے مطابق ضلع میں قومی اسمبلی کی ایک جبکہ صوبائی اسمبلی کی 4 نشستوں پر پولنگ ہوئی تھی۔ الیکشن کمیشن کے مطابق اس وقت ضلع کیچ میں کل 236 پولنگ سٹیشن ہیں۔
الیکشن کمیشن کے ایک آفیسر نے ایک تربیتی سیمینار کے دوران بتایا کہ الیکشن کمیشن کے اشتراک سے جینڈر اینڈ ڈیسبیلیٹی الیکٹورل ورکنگ گروپ کے نام سے مختلف این جی اوز اور سی او سیز ان علاقوں کی نشاندہی کرتی ہیں جہاں خواتین کے شناختی کارڈ نہیں بنے اور الیکشن کمیشن کو لکھتی ہیں۔ ہم نادرا کو پابند کر رہے ہیں کہ ان خواتین کے شناختی کارڈ بنائے جائیں اور بطور ووٹر ان کا اندراج کیا جائے۔ اس حوالے سے مختلف یونیورسٹیز اور علاقوں میں معلوماتی سیشنز بھی کروائے جاتے ہیں جن میں علاقے کی معتبر شخصیات اور دیگر سٹیک ہولڈرز شرکت کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اب تک کیچ میں 5 کے قریب سیشن کروائے جا چکے ہیں اور لوگوں کو شعور و آگاہی دینے سے ووٹرز کی تعداد میں کافی حد تک اضافہ ہوا ہے کیونکہ لوگ الیکشن اور ووٹ کی اہمیت کو سمجھ رہے ہیں۔
40 فیصد خواتین آبادی پر مشتمل علاقے کو سیاسی جماعتوں کی جانب سے نمائندگی دینا بہت ضروری ہے۔ کیا 2024 کے انتخابات میں خواتین کو جنرل نشستوں پر موقع دیا جائے گا؟ اس سلسلے میں ہم نے بلوچستان کی قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی کے صوبائی ترجمان علی احمد لانگو سے بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ نیشنل پارٹی نے ہمیشہ خواتین کی سیاسی و سماجی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں سیاسی عمل میں بھرپور مواقع فراہم کیے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم خواتین اور بالخصوص اقلیتی خواتین کی ترجیحی بنیادوں پر حوصلہ افزائی کرتے آ رہے ہیں۔ ان کے مطابق اس وقت ان کی جماعت میں پروین صاحبہ جیسی خواتین بھی ہیں جنہیں ایک سے زائد بار مخصوص نشست پر پارٹی نے ممبر بنایا اور ہماری کوشش ہے کہ جنرل نشستوں پر بھی خواتین کو موقع دیا جائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہماری جماعت میں خواتین، اقلیت، لیبر و دیگر فورم بھی موجود ہیں۔ ان کے مطابق اس وقت پارٹی میں مرکزی و صوبائی خواتین سیکرٹریز کے علاوہ ذیلی عہدوں پر بھی 500 کے قریب خواتین کام کر رہی ہیں۔ اس طرح کلثوم بلوچ نیشنل پارٹی کی صوبائی خواتین سیکرٹری ہیں اور اس وقت ایگریکلچر یونیورسٹی کوئٹہ سے ماسٹرز کر رہی ہیں۔ ان کے مطابق وہ مین سٹریم سیاست میں دلچسپی اس لیے رکھتی ہیں کہ وہ سمجھتی ہیں کہ اس وقت صوبے میں سیاسی جماعتوں کے اندر خواتین کی نمائندگی کم ہے اور وہ اس گیپ کو پُر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
اس سلسلے میں ہم نے مکران سے تعلق رکھنے والی جنرل نشست پر پہلی مرتبہ الیکشن لڑنے والی خاتون امیدوار زبیدہ جلال سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ 2002 میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں الیکشن کے دوران وہ شعوری طور پر کیچ گوادر کی نشست پر الیکشن لڑی تھیں۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ 2002 میں عوام ریجنل جماعتوں سے تنگ آ چکے تھے، میں نے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا اور حلقے کے عوام نے میری حوصلہ افزائی کی۔
انہوں نے کہا مکران چونکہ بلوچستان کے دیگر اضلاع سے سیاسی طور پر مختلف ہے، یہاں کے عوام زیادہ لبرل اور ترقی پسند ہیں اس لیے انہوں نے مجھے کامیاب کرایا۔ چنانچہ میں تاریخی لحاظ سے جنرل نشست پر پہلی خاتون تھی جو کامیاب ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ متوقع الیکشن میں وہ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گی۔ زبیدہ مزید کہتی ہیں کہ سیاسی جماعتیں خواتین کو ہمیشہ مخصوص نشست پر نامزد کرتی ہیں اور بہت ہی کم ایسا ہوا ہوگا بلکہ نہ ہونے کی برابر ہے کہ وہ کسی جیتنے والی نشست پر خواتین کو نامزد کریں۔
یاد رہے ضلع کیچ میں زبیدہ جلال واحد خاتون تھیں جنہوں نے جنرل نشست پر الیکشن لڑا۔
2002 کے عام انتخابات میں زبیدہ جلال کے مدمقابل سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اور نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ تھے۔ اس سلسلے میں جب ہم نے نیشنل پارٹی کے سینیئر رہنما اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کے سابق اسسٹنٹ پولیٹکل سیکرٹری حلیم بلوچ سے رابطہ کیا تو ان کے مطابق 2002 کے الیکشن میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ رات 12 بجے تک 12 ہزار کی برتری سے جیت رہے تھے مگر اورماڑو اور دیگر علاقوں کے نتائج کو روک کر اگلے روز اس لیڈ کو زبیدہ جلال کے حق میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس طرح جنرل پرویز مشرف کے دور میں بلوچستان میں کرائے گئے الیکشن متنازعہ رہے۔
اس بارے میں تربت کے ایک پسماندہ علاقے مند سے تعلق رکھنے والی سیاسی کارکن مینا مجید کا کہنا تھا کہ ملک میں 52 فیصد آبادی خواتین کی ہے مگر جنرل نشستوں پر ان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ الیکشن کمیشن ایکٹ 2002 کے مطابق خواتین کے لیے 18 فیصد مخصوص جبکہ 5 فیصد جنرل نشستیں مختص ہیں مگر سیاسی جماعتیں جنرل نشستیں خواتین کو دینے میں ناکام رہی ہیں۔
خواتین کو عام طور پر غیر معمولی حالات میں ٹکٹ ملتے ہیں یا جن حلقوں میں جیتنے کے امکانات کم ہوں انہیں وہاں سے ٹکٹ دیے جاتے ہیں۔ خواتین مخصوص نشستوں تک محدود ہیں۔ مکران ڈویژن جو کہ قوم پرست پارٹیوں کا مضبوط گڑھ ہے، یہاں سے بھی زیادہ تر پارٹیوں کی جانب سے مرد امیدوار الیکشن لڑتے ہیں۔ اسی طرح قبائلی ڈویژن قلات اور لسبیلہ کے حلقوں میں خواتین کو سیاسی پارٹیاں ٹکٹ نہیں دیتی ہیں۔ ڈیرہ بگٹی اور کوہلو میں بھی مری اور بگٹی قبیلے کے مضبوط سیاسی لوگ الیکشن خود لڑتے ہیں۔
جب ہم نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے بذریعہ ای میل پوچھا کہ جن پارٹیوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے الیکشن ایکٹ کے تحت جنرل نشستوں کے لیے 5 فیصد ٹکٹ خواتین کو نہیں دیے ان کے خلاف کیا کارروائی کئی گئی؟ مگر اب تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ البتہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اس حوالے سے اب تک کسی سیاسی جماعت کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کئی گئی۔