ضلع کیچ؛ 2 ماہ میں ڈینگی سے 14 ہلاکتیں، 5 ہزار سے زیادہ افراد متاثر

ٹیچنگ ہسپتال تربت میں مریضوں کو علاج کی مناسب سہولت نہ ملنے اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں لیبارٹری ٹیسٹ کے غیر مطمئن نتائج کی وجہ سے متاثرہ مریضوں کی بڑی تعداد علاج کے لیے کراچی کے ہسپتالوں میں جا رہی ہے۔

ضلع کیچ؛ 2 ماہ میں ڈینگی سے 14 ہلاکتیں، 5 ہزار سے زیادہ افراد متاثر

بلوچستان کے دوسرے بڑے شہر تربت میں دو ماہ کے دوران ڈینگی بخار سے 14 ہلاکتیں ریکارڈ کی گئیں جبکہ ہزاروں افراد متاثر ہوئے ہیں۔ متاثرین کی ایک بڑی تعداد بہتر علاج کے لیے کراچی کا رخ کرنے پر مجبور ہے۔ ڈینگی سے متاثر ہونے والے ایک شخص کے مطابق کھارادر کراچی کے ایک نیم فلاحی ہسپتال میں جب پچھلے ہفتے وہ زیر علاج تھے تو تربت سے تعلق رکھنے والے ڈینگی وائرس کے شکار 50 سے زیادہ مریض وہاں داخل تھے۔

کیچ کے ضلعی محکمہ صحت کے مطابق رواں برس 24 ہزار 552 مشتبہ مریضوں کی سکریننگ کی گئی جن میں 5329 کے نتائج مثبت آئے۔

ٹیچنگ ہسپتال تربت میں مریضوں کو علاج کی مناسب سہولت نہ ملنے اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں لیبارٹری ٹیسٹ کے غیر مطمئن نتائج کی وجہ سے متاثرہ مریضوں کی بڑی تعداد علاج کے لیے کراچی کے ہسپتالوں میں جا رہی ہے۔

وسیع رقبہ اور منتشر آبادی کی وجہ سے ضلع کیچ میں ڈینگی بخار سے وفات پانے والے افراد کے درست ڈیٹا تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ 14 معلوم افراد کی ہلاکت کے باوجود ضلعی محکمہ صحت کے سرکاری ریکارڈ میں کسی ہلاک شخص کا ذکر موجود نہیں ہے جس کا جواز ڈی ایچ او کیچ ڈاکٹر ابابگر بلوچ تربت میں دوران علاج کسی شخص کی وفات کا نہ ہونا بتاتے ہیں۔

محکمہ صحت کے مطابق تربت سے تعلق رکھنے والے جن 14 ڈینگی کے مریضوں کی ہلاکتیں ہوئیں وہ کراچی کے مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج تھے یا بہتر علاج کے لیے کراچی جاتے ہوئے راستے میں فوت ہوئے ہیں۔

ضلع کیچ کے ہیڈکوارٹر تربت کے مختلف علاقوں سے ملنے والی معلومات کے مطابق ڈینگی وائرس سے ہلاک افراد میں جلیل نور ولد نور بخش سکنہ جوسک، سبزل سکنہ جوسک، مہر دل سکنہ جوسک، نوجوان اللہ داد ولد باہوٹ سکنہ آبسر، اکرم غلام سکنہ کولوائی بازار آبسر، نور خاتون سکنہ آبسر تربت، ولی مری ولد رسد مری سکنہ مری محلہ چاہ سر، لال بخش داؤدی سکنہ شاہی تمپ، سکندر اور قابوس بلوچ کی شناخت کی جا سکی ہے۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

صوبائی محکمہ صحت نے تربت میں ڈینگی ایمرجنسی تو نافذ کی ہے لیکن اس کے لیے کوئی خصوصی فنڈ جاری نہیں کیے گئے۔ محکمہ صحت میونسپل کارپوریشن تربت کے ساتھ مل کر فوگنگ کرنے پر مجبور ہے۔

ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر ہیلتھ ڈاکٹر عزیز دشتی کا کہنا ہے کہ ڈی ایچ او آفس کے لیے ادویات کی مد میں سالانہ 4 کروڑ 80 لاکھ روپے مختص ہیں۔ ڈینگی وبا کے زمانے میں بھی اسی بجٹ پر کام چلا کر گزارہ کر رہے ہیں۔

محکمہ صحت کی جانب سے ضلع کیچ میں ڈینگی وائرس کے بڑھتے کیسز کے بعد ایمرجنسی لگانے اور اس مد میں ضلعی محکمہ صحت کو ملنے والے بجٹ پر ڈی ایچ او کیچ سے معلومات حاصل کرنے کی متعدد کوششوں کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

مبارک بلوچ نامی مریض کے مطابق سرکاری ہسپتال میں علاج کی سہولت اور ضلع کیچ کے پرائیویٹ ہسپتالوں میں لیبارٹری ٹیسٹ کے نتائج صحیح نہ ہونے کی وجہ سے مریض یہاں رل جاتے ہیں۔ ان کے مطابق وہ ایک ہفتے سے ڈینگی وائرس کا شکار رہے مگر انہیں علاج کی مناسب سہولت دستیاب نہیں تھی۔ اس لیے مجبوری کے عالم میں وہ بہتر علاج کی خاطر ایک دوست سے قرض لے کر کراچی جانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

ماسٹر آزاد بلوچ کا کہنا ہے کہ جب وہ ڈینگی کا شکار ہوئے تو انہیں شدید کمزوری کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ پلیٹلیٹس کی جانچ کروانے ایک پرائیویٹ ہسپتال گئے تو لیبارٹری کے نتائج نے انہیں سخت خوف زدہ کیا مگر اسی دن جب اس نے ایک دوسرے پرائیویٹ ہسپتال میں اپنا سی بی سی ٹیسٹ کرایا تو اس کا رزلٹ مختلف تھا جس میں پلیٹلیٹس کی کوئی کمی نہیں تھی۔

ایک عام آدمی کی رائے میں ضلعی محکمہ صحت ڈینگی بخار کے خاتمے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھاتا نظر نہیں آ رہا۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے محکمہ صحت پر سخت تنقید بھی کی جا رہی ہے اور ان کی کوششوں کو فوٹو سیشنز تک محدود سمجھا جا رہا ہے۔ مگر ڈی ایچ او کیچ اس تنقید پر اتفاق کرنے کے بجائے ڈینگی وائرس کا خاتمہ سوشل آگاہی ہی کو سمجھتے ہیں۔ ڈی ایچ او ڈاکٹر ابابگر کے مطابق جب تک لوگ باشعور ہو کر کھلے پانی کو ڈھکنے اور ٹینکیوں میں بلاضرورت پانی جمع کرنے کا سلسلہ ختم نہیں کریں گے محکمہ صحت کی ہر کوشش رائیگاں جائے گی۔

تربت کے ساتھ ساتھ رواں ہفتے ضلع گوادر اور ضلع پنجگور میں بھی ڈینگی وائرس کے کیسز سامنے آئے ہیں تاہم ان دونوں اضلاع میں حالت اب بھی نارمل ہے۔ گوادر کے ایک سینئر میڈیکل آفیسر نے ضلع کے سرکاری ہسپتال میں دوران علاج ایک مریض میں ڈینگی وائرس کی تصدیق کی ہے۔