Get Alerts

ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے؟ مواد غیرقانونی طور پر اکٹھا کیا گیا؟ ججز کے فروغ نسیم سے سوالات

ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے؟ مواد غیرقانونی طور پر اکٹھا کیا گیا؟ ججز کے فروغ نسیم سے سوالات
سماعت کا وقت تو 11 بج کر 30 منٹ تھا لیکن آج 10 بجے ہی کورٹ نمبر ایک پہنچ چکا تھا۔ چیف جسٹس گلزار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جنرل مشرف کو سزائے موت سنانے والی خصوصی عدالت کو کالعدم قرار دینے والے جسٹس مظاہر اکبر نقوی پر مشتمل تین رکنی بنچ مقدمات کی سماعت کر رہا تھا۔ دلچسپی کی بات ہے کہ کورٹ روم نمبر ون میں ابھی جسٹس مظاہر اکبر نقوی بنچ میں بیٹھے تھے جب کہ کچھ دیر میں ہی ان کو لاہور ہائی کورٹ سے ترقی دے کر سریم کورٹ لانے کی مخالفت میں دو صفحوں کا انتہائی سخت اختلافی نوٹ لکھنے والے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے جج رہنے یا نہ رہنے کا کیس بھی اسی کمرہ عدالت میں سنا جانا تھا۔ کوئی صحافی کمرہ عدالت میں موجود نہیں تھا۔ تھوڑی دیر سماعت سن کر کمرہ عدالت سے نکل آیا کہ چائے پیتا ہوں۔

راستے میں صحافی دوست عمران وسیم اور جاوید سومرو سے ملاقات ہو گئی اور پھر ہم نے ساتھ چائے پی جب کہ مختلف کیسز پر بحث بھی چلتی رہی جس میں بعد ازاں اینکر سمیع ابراہیم بھی شامل ہو گئے۔ 11 بجے دوبارہ کورٹ روم نمبر ون آ گیا۔ 11 بج کر 5 منٹ پر تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی ملیکا بخاری، ایسیٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ بیرسٹر شہزاد اکبر، خالد رانجھا اور عرفان قادر کمرہ عدالت میں داخل ہو کر حکومت کے لئے مخصوص نشستوں پر بیٹھ گئے اور 11 بج کر 10 منٹ پر فروغ نسیم نے بھی حکومتی نشستوں کو جوائن کر لیا۔ دوسری طرف حکومتی ریفرنس کی اپوزیشن کرنے والے حامد خان ایڈووکیٹ بیٹھے تھے جب کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی قانونی ٹیم منیر اے ملک ایڈووکیٹ اور ان کے نوجوان لیکن قابل معاون وکیل صلاح الدین کراچی رجسٹری سے ویڈیو لنک پر دستیاب تھے۔

دو ماہ بعد شروع ہونے والی سماعت میں آج سب سے اہم پیشرفت بیرسٹر فروغ نسیم کا وزیر قانون سے استعفا دے کر بطور وکیل پیش ہونا تھا۔ آپ کو بیرسٹر فروغ نسیم کا بیک گراونڈ ضرور سمجھنا ہوگا۔



یہ بھی پڑھیے: لیفٹننٹ جنرل کی سپریم کورٹ آمد، چیف جسٹس نے کورونا کو وبا قرار دے دیا







جب تک بانی متحدہ قومی موومنٹ الطاف حسین اسٹیبلشمنٹ کی گڈ بکس میں رہے یہ ان کے لئے لندن جا کر بھی مقدمات لڑتے رہے اور جب ایم کیو ایم اسٹیبلشمنٹ کے زیر عتاب آئی تو سینیٹ الیکشن میں ایم کیو ایم کا صرف ایک ہی سینیٹر جتوایا گیا جو بیرسٹر فروغ نسیم ہی تھے جب کہ عددی اکثریت کے باوجود ایم کیو ایم کے دیگر تمام امیدواروں کی شکست یقینی بنائی گئی۔ فروغ نسیم خصوصی عدالت سے ثابت شدہ غدار وطن آمر جنرل مشرف کے وکیل بھی رہے اور ایم کیو ایم کی قیادت نے متعدد بار آن ریکارڈ کہا ہے کہ بیرسٹر فروغ نسیم کابینہ میں ان کی نمائندگی نہیں کرتے، نہ انہوں نے وزارت کے لئے ان کا نام تجویز کیا تھا۔ تو آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ بیرسٹر فروغ نسیم کابینہ میں کن قوتوں کے نمائندے ہیں اور جب بھی ان قوتوں کو ضرورت ہوتی ہے تو بیرسٹر فروغ نسیم وزارت سے استعفا دے کر کالا کوٹ پہن کر عدالت پہنچ جاتے ہیں اور جاب ڈلیور کر کے دوبارہ وزارت کا حلف لے لیتے ہیں۔ اگر یہ ماضی دیکھا جائے تو سمجھ آ جاتی ہے کہ بیرسٹر فروغ نسیم بھی شریف الدین پیرزادہ جیسا ایک مہرہ ہیں جن کا ریمورٹ کنٹرول ایک ہی جگہ پر موجود ہے۔ بیرسٹر فروغ نسیم کی قوت فیصلہ کسی اور کے ہاتھ میں ہے اور ان کی اپنی کوئی حیثیت نہیں کہ انہوں نے خود استعفا دے کر پیش ہونے کا فیصلہ کیا ہو۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جسٹس قاضی فائر عیسٰی کو راستے سے ہٹانے میں دلچسپی رکھنے والی ایک اہم شخصیت کی وجہ سے بیرسٹر فروغ نسیم نے وزارت قانون سے استعفا دے کر عدالت میں پیش ہونے کا فیصلہ کیا کیونکہ ذرائع کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو راستے سے ہٹانے کے لئے قانونی راستہ اختیار کرنا محفوظ آپشن ہے۔ یہ مشورہ بیرسٹر فروغ نسیم کا ہی تھا۔

11 بج کر 35 منٹ پر دس رکنی فل کورٹ کمرہ عدالت میں داخل ہوئی۔ صرف جسٹس فیصل عرب نے N-95 ماسک لگا رکھا تھا جب کہ باقی نو ججز نے سادہ کپڑے کا ماسک پہن رکھا تھا۔ ججز کے نشستوں پر بیٹھنے کے فوری بعد فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کمرہ عدالت میں موجود تمام لوگوں کو محفوظ فاصلہ اختیار کرنے کا حکم دیا جس پر کسی نے عمل نہیں کیا کیونکہ رش اتنا تھا کہ ایک نشست کا فاصلہ اختیار کرنا ممکن نہیں تھا اور کوئی بھی اپنی نشست خالی کر کے کھڑا ہونے کو تیار نہ تھا۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے فل کورٹ کو آگاہ کرنا شروع کیا کہ خالد رانجھا، ضیا مصطفیٰ اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان صدر اور وزیر اعظم کی جب کہ میں دیگر فریقوں کی نمائندگی کروں گا جن کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی درخواست میں فریق بنا رکھا ہے۔ اس دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک وڈیو لنک پر روسٹرم پر آ گئے اور انہوں نے اپنی بات کا آغاز ان کلمات سے کیا کہ میں بیرسٹر فروغ نسیم کی بہت عزت کرتا ہوں لیکن مجھے ان کے وفاق کی نمائندگی پر اعتراض ہے۔ منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ بیرسٹر فروغ نسیم سپریم کورٹ کے 2017 میں دیے گئے رشید احمد کیس کے فیصلہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پیش ہو رہے ہیں۔



یہ بھی پڑھیے: نئے اٹارنی جنرل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس پر رائے قائم کرنے سے پہلے اپنا دماغ استعمال کریں: جسٹس عمر عطا بندیال







جسٹس عمر عطا بندیال نے منیر اے ملک سے درخواست کی کہ وہ اگر اپنے چہرے سے ماسک ہٹا کر بولیں تو الفاظ سمجھ آئیں گے جب کہ فل کورٹ کے بنچ نے رشید اے رضوی ایڈووکیٹ کو منیر اے ملک سے چھ فٹ کے فاصلے پر کھڑے ہونے کی ہدایت بھی کی۔ منیر اے ملک ایڈووکیٹ نے رشید احمد کیس کے صفحہ 21 پر لکھے پیراگراف کو پڑھنا شروع کیا جس میں لکھا تھا کہ ایڈووکیٹ جنرلز اور اٹارنی جنرل کی صورت میں حاصل ٹیم کے ہوتے ہوئے وفاق نجی وکیل کی خدمات حاصل نہیں کر سکتا۔ رشید احمد کیس کے فیصلے میں مزید لکھا تھا کہ وفاق صرف اس صورت میں نجی وکیل کی خدمات لے سکتا ہے اگر کوئی بہت پیچیدہ قانونی سوال درپیش ہو اور اس کے لئے بھی اٹارنی جنرل سپریم کورٹ میں نجی وکیل کی خدمات حاصل کرنے کے لئے سرٹیفکیٹ پیش کرے گا۔



منیر ملک جب فیصلے کے نکات پڑھ رہے تھے تو اٹارنی جنرل خالد جاوید خان اٹھ کر بیرسٹر فروغ نسیم کے پاس آئے اور اٹارنی جنرل نے فروغ نسیم کے کان میں کچھ بات کہہ کر واپس اپنی نشست سنبھال لی۔ دس رکنی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ وفاق کو عدالت میں قانونی نمائندگی کا حق حاصل ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے وفاق کو نجی وکیل حاصل کرنے کے حق میں وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ویسے تو اٹارنی جنرل عدالت میں وفاق کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن پچھلے اٹارنی جنرل کیپٹن انور منصور خان مستعفی ہو چکے جب کہ موجودہ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کچھ وجوہات کی بنیاد پر اس کیس میں وفاق کی نمائندگی سے معذرت کر لی ہے۔

فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے منیر اے ملک ایڈووکیٹ سے بیرسٹر فروغ نسیم پر اعتراض واپس لینے کی درخواست کرتے ہوئے اہم ریمارکس دیے کہ انہوں نے جسٹس قاضی فائز کی درخواست پڑھی ہے اور اس کے نکات بحث کو بہت نچلے مقام پر لے جائیں گے۔ منیر اے ملک ایڈووکیٹ نے فل کورٹ کے سربراہ سے درخواست کی کہ یہ کیس احتساب اور شفافیت سے متعلق ہے اس لئے شفافیت ہوتی نظر بھی آنی چاہیے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے فل کورٹ کو آگاہ کیا کہ اگر منیر اے ملک کا اعتراض صرف رشید احمد کیس ہے تو اٹارنی جنرل کمرہ عدالت میں موجود ہیں اور وہ سرٹیفکیٹ جمع کروانے کو تیار ہیں کہ وفاق کو نجی وکیل کی ضرورت تھی۔

11 بجکر 50 منٹ پر جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے بائیں ہاتھ پر جسٹس منظور ملک کے ساتھ بیٹھے جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس مقبول باقر نے دائیں طرف بیٹھے جسٹس فیصل عرب اور جسٹس سجاد علی شاہ سے مشاورت شروع کر دی۔ پانچ منٹ کی مشاورت کے بعد فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے بیرسٹر فروغ نسیم کو دلائل کی مشروط اجازت دے دی اور ریمارکس دیے کہ آپ سرٹیفکیٹ جمع کروا دیں جس پر ہم بعد میں فیصلہ دیں گے۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے انتہائی جوش سے قدرے بلند الفاظ میں دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ان کی ذات کے بارے میں جو زبان استعمال کی، اس پر انہیں شدید اعتراض ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے بیرسٹر فروغ نسیم کو منع کرتے ہوئے حکم دیا کہ آپ درخواست میں استعمال کی گئی زبان اور الفاظ کو چھوڑ دیں اور صرف کیس کے میرٹ پر بات کریں۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ اس کیس کی بنیاد تین چیزیں ہیں، پہلی آئین پاکستان کی دستاویز میں موجود آرٹیکل 209، دوسری ججز کا کوڈ آف کنڈکٹ اور تیسری سپریم جوڈیشل کونسل کے انکوائری رولز 2005۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ جج نے اپنے اہلخانہ کے نام جائیدادوں کا اعتراف کیا ہے، اس لئے اب سوال یہ ہے کہ جائیدادیں کیسے لی گئی ہیں۔ اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جائیدادوں کی موجودگی سے انکار کر دیتے تو پھر جاسوسی اور بدنیتی کے سوالات اٹھائے جا سکتے تھے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے دس رکنی فل کورٹ کو دلیل دی کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے سوال یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ کے ایک جج نے آرٹیکل 209 کی خلاف ورزی کی ہے یا نہیں؟



یہ بھی پڑھیے: اٹارنی جنرل پہلی وکٹ: جسٹس عیسیٰ کیس اور کس کس کی وکٹ لے گا؟







بیرسٹر فروغ نسیم کی آواز ایک بار پھر بلند ہوگئی اور انہوں نے سنیارٹی لسٹ میں تیسرے نمبر پر موجود واحد بلوچی جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ذات کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جج نے اپنی درخواستوں میں ہر بات لکھی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ یہ جائیدادیں کہاں سے آئیں؟ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ منی ٹریل دینا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر فرض تھا اور اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو وہ مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوں گے۔ فل کورٹ کے سربراہ کے بائیں ہاتھ پر تیسرے نمبر بیٹھے جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ پہلے یہ تو ثابت کریں یہ جائیدادیں جج کی بے نامی ہیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ بار ثبوت جج پر ہے کہ یہ جائیدادیں اس کی نہیں ہیں۔

جسٹس بندیال نے سوال پوچھا کہ اگر جج کے بیوی بچے کماتے ہوں تو آپ نے یہ نتیجہ کیسے اخذ کر لیا کہ جائیدادیں جج کی ہیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ کیونکہ بیوی بچے جج کے سب سے قریبی ہوتے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے حیرت سے سوال پوچھا کہ اگر میرا بیٹا کل کوئی جائیداد خریدے گا تو کیا میں ہر بار یہ جواب دیتا رہوں گا کہ اس نے کیسے جائیداد خریدی؟ فل کورٹ میں انتہائی بائیں ہاتھ بیٹھے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ کے ہمسائے جسٹس یحیٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ پہلے یہ تو ثابت کریں کہ بیوی بچے جج کے ڈیپنڈنٹ ہیں۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے ججز کے سوالات پر جواب دیا کہ جج پلٹ کر مجھے تھپڑ مار سکتا تھا کہ یہ ہیں وہ ذرائع جن سے جائیدادیں لی گئی ہیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا مزید کہنا تھا کہ جج صاحب شوکاز جاری ہونے تک سپریم جوڈیشل کونسل میں درخواستیں دیتے رہے ہیں اور پھر ریفرنس یہاں چیلنج کر دیا جب کہ بہتر تھا کہ وہ جائیدادوں کا جواب دے دیتے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جج نے جواب دیا ہے کہ آپ جائیدادوں کا سوال بیوی بچوں سے کریں۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنی پوزیشن تھوڑی تبدیل کرتے ہوئے کہا کہ کوڈ آف کنڈکٹ کہتا ہے کہ جج کی ذات الزامات سے پاک ہو اور اس کی عوام میں اچھی ساکھ ہو۔ اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے مداخلت کرتے ہوئے بیرسٹر فروغ نسیم سے اہم مکالمہ کیا کہ بیرسٹر فروغ نسیم آپ تو ٹیکس امور کے ماہر وکیل ہیں لیکن آج ایسا لگ رہا ہے آپ اپنے کیس سے ہٹ گئے ہیں، آپ نے کیس ٹیکس ریٹرن کا کیا لیکن آج آپ منی ٹریل مانگ رہے ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے قرار دیا کہ ایسا لگتا ہے اب آپ جو پوزیشن لے رہے وہ آفٹر تھاٹ یعنی بعد میں سوچی جانے والی حکمت عملی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے ان ریمارکس کے اختتام پر بیرسٹر فروغ نسیم سے سوال بھی پوچھ لیا کہ انہوں نے اس مقدمے میں پیش ہونے کی کیا فیس لی ہے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ انہوں نے کوئی فیس نہیں لی ہے۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا مزید کہنا تھا کہ یہ ریفرنس آرٹیکل 209 اور کوڈ آف کنڈکٹ کے ساتھ ملا کر پڑھنا ہوگا۔



یہ بھی پڑھیے: اٹارنی جنرل کے دلائل پر ججز سخت برہم اور بُلند آواز میں اٹارنی جنرل سے مُکالمہ







بیرسٹر فروغ نسیم خاموش ہوئے تو جسٹس سجاد علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ پہلے یہ بتائیں کہ ریفرنس کیسے بدنیتی پر مبنی نہیں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے بھی اپنا سوال شامل کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ کی دلیل یہ ہے کہ شوکاز جاری ہونے کے بعد ہم یہ کیس نہیں سن سکتے تھے؟ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے صرف ریفرنس دائر کرنے کے لئے اکٹھے کیے گئے مواد کے طریقہ کار اور ریفرنس کے قابل سماعت ہونے پر بات کی۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ منیر اے ملک نے اپنا کیس صرف افتخار چوہدری بنام جنرل مشرف کیس پر کھڑا کیا ہے لیکن یہ ریفرنس قطعی اس سے مختلف ہے۔ اس موقع پر اپنے سابق مؤکل غدار آمر جنرل مشرف کے بارے میں بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ وہ ایک فوجی سربراہ تھے جنہوں نے آرمی ہاؤس میں چیف جسٹس افتخار چوہدری سے بدسلوکی کی جب کہ سابق چیف جسٹس کے بال بھی پکڑے گئے اور ریفرنس دائر ہوتے وقت آئینی طریقہ کار پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔ جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس مقبول باقر اور جسٹس فیصل عرب نے مختصر مشاورت کی جس کے بعد جسٹس فیصل عرب نے سوال پوچھا کہ کیا جسٹس افتخار چوہدری شوکاز نوٹس کے بغیر سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش ہو گئے تھے؟ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا جی ہاں، وہ صرف ایک نوٹس پر پیش ہوئے تھے اور سپریم جوڈیشل کونسل نے انکوائری رولز 2005 پر عمل نہیں کیا تھا جب کہ موجودہ ریفرنس میں ان رولز پر مکمل طور پر عمل کیا گیا ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے بیرسٹر فروغ نسیم کو ہدایت کی کہ صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواست میں اس ریفرنس کو غیر قانونی اور بدنیتی پر مبنی کہا گیا ہے پہلے اس پر بات کریں، بعد میں دوسری طرف آئیے گا کیونکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی قانونی ٹیم بھی وہیں تک محدود رہی ہے۔ جسٹس مقبول باقر کی ہدایت پر بیرسٹر فروغ نسیم کے ردعمل سے پہلے ہی ان کے دائیں بیٹھے جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ لیکن آرٹیکل 209 کے تحت صدارتی ریفرنس دائر ہو تو شوکاز نوٹس جاری کرنا تو ضروری ہو جاتا ہے۔ بیرسٹر فروغ نسیم سکھ کا سانس لیتے ہوئے بولے کہ بالکل، جسٹس فیصل عرب نے جو بات کی ہے اس کو دیکھنا ضروری ہے۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے جسٹس فیصل عرب کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے وضاحت کی کہ سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کرنے کے دو طریقہ کار ہیں۔ ایک جس میں کوئی بھی شخص سپریم جوڈیشل کونسل میں درخواست دائر کر سکتا ہے اور دوسرا صدر آرٹیکل کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کے تحت کارروائی کا کہہ سکتا ہے۔ لیکن اگر صدارتی ریفرنس ہے تو شوکاز جاری کرنا لازمی ہے۔ فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ کہنا چاہ رہے کہ اگر شوکاز جاری ہوجائے تو پھر آرٹیکل 211 لگ جائے گا؟ بیرسٹر فروغ نسیم انتہائی مسرت سے اپنی جگہ سے باقاعدہ ہوا میں اچھلے اور انتہائی جوش سے بولے جی ہاں، جی ہاں، بالکل ایسا ہی ہے۔

بیرسٹر فروغ نسیم کی یہ خوشی لیکن عارضی ثابت ہوئی اور جسٹس سجاد علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ آپ کا کہنا کہ کیونکہ اب شوکاز نوٹس جاری ہو گیا ہے تو ہم بدنیتی اور مواد اکٹھا کرنے کا طریقہ کار قانونی تھا یا غیر قانونی کا سوال مت پوچھیں لیکن اگر ہم آپ کی یہ دلیل مسترد کر دیں تو پھر آپ کیا بدنیتی اور ریفرنس دائر کرنے سے قبل کے طریقہ کار پر جواب دیں گے؟



یہ بھی پڑھیے: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سازش کا حصہ بننے والے وزیراعظم کا حال ریاض حنیف راہی والا ہوگا







بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا جی ہاں بالکل پھر میں دلائل دوں گا۔w2

جسٹس سجاد علی شاہ نے جھنجھلا کر جواب دیا کہ پھر ابھی بدنیتی اور قانونی طریقے سے مواد اکٹھا کیا گیا پر ہی بات کر لیں، اتنا وقت اور توانائی ضائع کرنے کے تکلف کی کیا ضرورت ہے؟ جسٹس فیصل عرب بھی بولے کہ فروغ نسیم آپ کہہ رہے ہیں کہ بدنیتی ہے یا نہیں، اب چونکہ ریفرنس پر شوکاز جاری ہو چکا تو بدنیتی کا سوال چھوڑ دیں۔ جسٹس مقبول باقر نے سوال پوچھا کہ یہ دیکھا جائے گا کہ کیا ریفرنس دائر کرنے کے لئے طریقہ کار مکمل کیا گیا اور شکایت کنندہ کیسے اس نتیجے پر پہنچا کہ کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی ہوئی؟

بیرسٹر فروغ نسیم نے فل کورٹ سے سوال کیا کہ سماعت کب تک چلے گی؟ فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے جواب دیا کہ ہم تو دو ماہ سے بھرے بیٹھے ہیں، آپ بتائیں کب تک دلائل دے سکتے ہیں؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے ریفرنس کا مواد پڑھنا شروع کر دیا۔ اس دوران بیرسٹر فروغ نسیم نے ایک دستاویز پڑھنی شروع کی کہ کیسے ریفرنس کے شکایت کنندہ نے ایسٹ ریکوری یونٹ سے رجوع کیا۔ اب منیر اے ملک ایڈووکیٹ نے ویڈیو لنک پر آ کر اعتراض کیا کہ یہ جو دستاویز بیرسٹر فروغ نسیم پڑھ رہے ہیں یہ ہمارے پاس نہیں ہے۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ منیر اے ملک نے دو دن صرف اس بات پر لگائے تھے کہ کیسے یہ دستاویز اہم ہے اور وفاق کی ٹیم نے یہاں موجود ہونے کے باوجود اس دستاریز کو پیش نہیں کیا تھا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے بیک فٹ پر جاتے ہوئے ٹھہر ٹھہر کر ٹوٹے ٹوٹے الفاظ میں جواب دیا کہ وہ میں تو کمرہ عدالت میں موجود نہیں تھا، شاید ہم یہ دستاویز بھول گئے ہوں، لیکن مجھے وجہ معلوم نہیں ایسا کیوں ہوا۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے دوبارہ ریمارکس دیے کہ اگر ریفرنس چیلینچ کرنے والے وکلا کو یہ دستاویز ملی ہی نہیں اور اںہوں نے اس پر دلائل نہیں دیے تو ہم اس موقع پر اب اس دستاویز پر آپ کو کیسے سن سکتے ہیں؟ جسٹس مقبول باقر نے بھی جسٹس سجاد علی شاہ کا ساتھ دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ جب تک آپ یہ دستاویز درخواسگزار جج کے وکلا کو نہیں دیتے اور وہ نہیں دے لیتے، ہم اس پر آپ (بیرسٹر فروغ نسیم) کو نہیں سن سکتے۔

اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے سوال پوچھا کہ یہ شکایت ایسٹ ریکوری یونٹ تک پہنچی کیسے؟ فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوئے بیرسٹر فروغ نسیم کو تین اہم سوالوں کا جواب لانے کی ہدایت کی اور سوال یہ تھے کہ اس الزام کا جواب دیں کہ

  • ریفرنس بدنیتی پر مبنی نہیں اور مواد غیر قانونی طور پر اکٹھا نہیں کیا گیا؟

  • یہ مواد صدر یا سپریم جوڈیشل کونسل نے جمع کیوں نہیں کیا بلکہ یہ شکایت ایسٹ ریکوری یونٹ کے پاس کیسے پہنچ گئی؟

  • اور یہ ایسٹ ریکوری یونٹ آخر ہے کون؟


جسٹس بندیال کے سوالات میں جسٹس مقبول باقر نے ایک اور انتہائی اہم سوال شامل کر دیا کہ یہ بھی جواب دیجئے گا کہ:

  • اگر ریفرنس کے لئے مواد اکٹھا کرنے کے لئے درست طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا تو اس کے قانونی اثرات کیا ہوں گے؟


اس کے بعد درخواست کل تک کے لئے ملتوی کر دی گئی۔ بظاہر فل کورٹ ایسٹ ریکوری یونٹ کی قانونی حیثیت پر مطمئن نظر نہیں آ رہا۔