پاک بھارت کشیدگی، امریکا کی ثالثی کی کوششیں

رواں ہفتے پاکستان میں انڈیا کے دو جنگی طیارے گرائے جانے کے بعد امریکا کو ایک بار پھر پاکستان کے ساتھ روابط بڑھانے کا موقع مل گیا ہے۔

سابق امریکی صدر باراک اوباما کی قیادت میں وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کی افغانستان اور پاکستان کے حوالے سے سابق ڈائریکٹر شمالہ این چودھری نے کہا ہے  کہ انڈیا اور پاکستان میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث امریکا کو سیلف ڈیفنس کے اپنے بیانیے کو ترک کرنا پڑا ہے۔

انہوں نے امریکا کے مشیر برائے قومی سلامتی جان بولٹن کے بیان کا حوالہ بھی دیا جس میں انہوں نے 14 فروری کو پلوامہ میں خودکش حملوں کے بعد ’’انڈیا کا اپنا تحفظ‘‘ یقینی بنانے کے حق کی حمایت کی تھی۔



لیکن امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے دونوں ملکوں پر اب  یہ زور دیا ہے کہ وہ کسی بھی طور دوطرفہ کشیدگی کم کریں۔ امریکا کے متعدد قانون سازوں نے ان کی اس اپیل کی حمایت کی ہے۔

امریکی کانگریس کے رُکن اور خارجہ کمیٹی کے سربراہ ایلیٹ ایل اینگل نے کہا :’’پاکستان کی جانب سے انڈین فضائیہ کے ونگ کمانڈر ابھی نندن کی واپسی دونوں ملکوں میں جاری کشیدگی ختم کرنے اور مکالمہ شروع کرنے کے تناظر میں ایک مثبت پیشرفت ہے۔‘‘

سینئر ڈیموکریٹ رہنما اور سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ امور کے رکن سینیٹر باب مینیڈیز نے ٹرمپ انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ جنوبی ایشیا میں امن اور پائیداری کے فروغ کے لیے فعال کردار ادا کرے۔ انہوں نے موجودہ انتظامیہ کو یہ بھی باور کروایا کہ ’’ماضی میں ریپبلیکنز اور ڈیموکریٹس دونوں ہی جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے فروغ کے لیے نمایاں کردار ادا کرتے رہے ہیں۔‘‘



امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے  کہ ان کی پاکستانی اور انڈین قیادت سے سیرحاصل گفتگو ہوئی ہے جس میں انہوں نے قیادت پر زور دیا ہے کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف ایسا کوئی اقدام نہ کریں جس سے جنگ کے خطرات میں اضافہ ہو۔

امریکی میڈیا کہتا ہے کہ اگرچہ امریکا انڈیا اور پاکستان کے ساتھ مستقل طورپر رابطے میں ہے، تاہم امریکا کی سابق ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ برائے جنوبی ایشیا ایلیزا آئرز کہتی ہیں کہ امریکا کا اثرو رسوخ اب وہ نہیں رہا جو کارگل بحران کے دنوں میں تھا جب پاکستان امریکا کا نہایت قریبی اتحادی تھا۔

پاکستان میں سابق امریکی سفیر کیمرون منٹر کا کہنا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کو دو اہم امور پر بات چیت کرنے کی ضرورت ہے جن میں بھارت کے زیرِانتظام جموں و کشمیر میں بڑے پیمانے پر فوج کی تعیناتی اور پاکستان میں فعال عسکریت پسند گروہوں کے معاملات سرفہرست ہیں۔