معاون خصوصی کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد فردوس عاشق اعوان کا انکشافات سے بھرپور انٹرویو

معاون خصوصی کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد فردوس عاشق اعوان کا انکشافات سے بھرپور انٹرویو
وزیراعظم عمران خان کی سابق معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ وزرات میں ایک وقت میں بہت سے وزیر اطلاعات کام کر رہے تھے جس کی وجہ سے ایک بیانیہ لے کر چلنا انتہائی مشکل تھا۔

نجی ٹی وی چینل اے آر وائے کے پروگرام 'اعتراض ہے' میں گفتگو کرتے ہوئے سابق معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ وزیراعظم پاکستان کا آئینی اور قانونی حق، اختیار اور استحقاق ہے کہ وہ اپنی ٹیم اپنی مرضی کے مطابق منتخب کریں، انہوں نے اپنے اختیار کا استعمال کیا اور اپنی ٹیم لے کر آئے۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں دعا گو ہوں کہ نئی ٹیم ان کی توقعات پر پورا اترے اور عوام میں پاکستان تحریک انصاف کی عوام دوستی، احساس اور پسے ہوئے طبقے کے لیے کچھ کرنے کے عزم کو اجاگر کرے۔

عہدے سے ہٹائے جانے سے متعلق سابق معاون خصوصی نے کہا کہ گذشتہ برس 18 اپریل کو تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری ہونے سے لے کر عہدے سے ہٹائے جانے تک کوئی دن ایسا نہیں تھا جب میں کانٹوں کی سیج پر نہیں ہوتی تھی، یہ ایک بہت اہم ذمہ داری ہے اور بہت چیلنجنگ دن ہوتا ہے۔ ہر روز نکلتے وقت چیلنج الگ ہوتا ہے جوں جوں دن آگے بڑھتا ہے چیلنجز کی تعداد بھی اسی تیزی سے بڑھتی ہے۔

پرنسپل سیکریٹری کی جانب سے استعفیٰ مانگنے سے متعلق سوال پر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ ایک بیوروکریٹ کو استعفیٰ مانگنے کا اختیار نہیں، کوئی بھی بیوروکریٹ، کتنے بھی گریڈ کا ہو، کسی بھی پوزیشن میں کسی سیاستدان سے استعفیٰ لینے کا حق نہیں رکھتا۔ اسے اس سلسلے میں کوئی آئینی اور قانونی اختیار حاصل نہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ اختیار وزیراعظم پاکستان کا ہے، جنہوں نے مجھے منتخب کیا یہ اتھارٹی بھی انہی کی تھی کہ وہ مجھے بلا کر اس کام کے لیے کہتے۔

فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ ایک وقت میں بہت سارے وزیر اطلاعات کام کررہے تھے جن میں سے مختلف آپ کے سامنے ہی ہیں، وزارت کے اندر ایک بیانیہ لے کر چلنا انتہائی مشکل تھا اور ایسے بھی ترجمان تھے جنہیں باضابطہ طور پر تعینات نہیں کیا گیا تھا اور ان سے وزیراعظم آفس میں بیٹھے لوگ وہ کام کرواتے جس کی ذمہ داری تھیں۔

سابق معاون خصوصی نے کہا کہ جب یہ چیزیں چل رہی تھیں میرے نوٹس میں آیا کہ جس دن سے میں نے چارج لیا تھا وزیراعظم آفس سے مسلسل میری وزارت، سیکریٹری کو بلا کر بتایا جاتا تھا کہ یہ وزیر نہیں ہیں، یہ صرف وزیراعظم کی معاون خصوصی ہیں، وزیراعظم انچارج ہیں، لہذا ان کے حکم کے مطابق (میں نہیں جانتی یہ وزیراعظم کا حکم تھا یا نہیں) آپ نے معاون خصوصی کی بات نہیں ماننی۔

انہوں نے کہا کہ میں اس لیے نہیں کہتی یہ کہ وزیراعظم کا حکم تھا کہ وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کا کوئی وزیر رکاوٹوں کا شکار ہو، اسے کام کرنے کا موقع نہ ملے یا اس کی وزارت میں غیر ضروری مداخلت ہو، بیوروکریسی سیاسی قیادت کو نقصان پہنچائے اور یا ان کے دفتر میں بیٹھا کوئی بھی شخص وزیراعظم کی جانب سے ایسے فیصلے کرے جس سے ہماری سیاسی قیادت کو مسائل ہوں۔

فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ میری ٹیم مجھے بتاتی تھی کہ بلا کر یہ کہا گیا تھا لیکن مجھے یہ تھا کہ ہم نے کام کر کے دکھانا ہے۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے اگر کوئی ایسی پالیسی، ایسا مسئلہ، پروجیکٹ جو براہ راست اسائن کرنا چاہیں تو اگر اس سے عوام کی بہتری اور حکومت کا فائدہ ہوتا ہے تو کریں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سے یہ نقصان ہوتا تھا کہ بیوروکریسی میں ایک چین آف کمانڈ نہیں ہوگی، متعدد باس ہوں گے اور متعدد جگہ سے وہ ہدایات لیں گے تو کوئی بھی اس کی ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں ہوگا اور کوئی بھی شخص اس ذمہ داری اور اتھارٹی کو ایک ساتھ لے کر نہیں چلے گا جس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ میرا باضابطہ بیان نہیں آتا تھا اور وزیراعظم آفس یا ترجمان بن کر غیر سرکاری بیان آجاتے تھے۔

سابق معاون خصوصی نےکہا کہ اس طرح کے اور بھی مسائل تھے جنہیں میں دیکھ رہی تھی یہ چیز وزیراعظم کے نوٹس میں بھی تھی اور میں شکریہ ادا کرنا چاہوں گی کہ کابینہ، وزیراعظم کی جماعت اور ان کی ٹیم میں بہت سے لوگ میری حمایت بھی کرتے تھے اور مجھے سمجھاتے تھے کہ آپ کی لڑائی 4 محاذوں پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ دوسری جانب کابینہ کے اندر کچھ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اس سے بہتر پرفارم ہونا چاہیے یہ ان کی رائے تھی اور کچھ چاہتے تھے کہ جہاں کام ٹھیک نہیں ہورہا وہاں تبدیلی ہونی چاہیے۔ گذشتہ 3 ماہ سے چپقلش چل رہی تھی کچھ غیر مجاز افراد کو وزارت اطلاعات میں شامل کیا گیا تھا اور مجھے کہا گیا تھا کہ وہ میرے ماتحت اور ہدایات پر کام کریں گے اور پارٹی کا بیانیہ بھی آگے لے کر چلیں گے تو انہیں بطور ٹیم رکن مصروف عمل کریں۔

وزارت اطلاعات میں شامل کیے جانے والے افراد سے متعلق سوال پر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ ابھی تک ان افراد کو ٹائٹل دستیاب نہیں، میں نہیں جانتی کس کی ہدایات پر وہ ہر جگہ اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ میں وزارت میں نہیں ہوں کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرنا چاہتی جس سے حکومت کے لیے کوئی مسئلہ پیدا ہو، جس پر اینکر کی جانب سے شہباز گل کا نام لیے جانے پر انہوں نے کہا کہ سمجھدار کے لیے اشارہ کافی ہے۔

فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ مجھے ڈی نوٹیفائی کرنے کے حوالے سے بحث چھڑگئی تھی، ایسا نہیں تھا کہ وزیراعظم نے مجھے عہدے سے ہٹانے کا کہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایک ہفتہ قبل میں نے وزیراعظم سے ملاقات کی تھی اور ان سے درخواست کر کے ملاقات کے لیے وقت مانگا تھا کہ مجھے کچھ چیزیں واضح کرنی ہیں اور کچھ گائیڈلائنز دینی ہیں۔ میں وزیراعظم سے پوچھنا چاہتی تھی کہ میری ذمہ داری اور اتھارٹی کیا ہے انہیں ایک ہی مرتبہ سیٹل کر دیا جائے، پورے ایک سال میں نہ جانے کون کون میرے حوالے سے شکایات، تحفظات لے کر گیا ہوگا اور میں ان کی جگہ ہوتی تو یہ فیصلہ کرنے میں 2 مہینے بھی نہ لگاتی۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کو حقائق مسخ کر کے بتائے گئے تھے، انہوں نے مجھ سے شکایت نہیں کی لیکن میں نے کچھ چیزیں واضح کیں تھیں، وزیراعظم کے الفاظ تھے کہ اپنا کام کریں جب مجھے ضرورت پڑے گی میں خود کہوں گا مجھے کسی اور کو کہنے کی ضرورت نہیں ہے تو ادھر ادھر کی نا سنیں کہ کون کیا کہہ رہا ہے اپنا کام کریں۔

خیال رہے کہ 27 اپریل کو پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے رہنما و سینیٹر شبلی فراز کو وزیر اطلاعات و نشریات مقرر کردیا جبکہ معاون خصوصی اطلاعات فردوس عاشق اعوان سے عہدہ واپس لے لیا گیا تھا، فردوس عاشق اعوان کی جگہ سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ کو وزیر اعظم کا نیا معاون خصوصی برائے اطلاعات مقرر کیا گیا تھا۔