گذشتہ روز قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہو جانے والے پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما عارف وزیر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئے ہیں۔ عارف وزیر کو وانا کے ایک بازار میں اس وقت گولیاں ماری گئیں تھی جب وہ ایک دکان سے اٹھ کر اپنی گاڑی میں بیٹھ چکے تھے۔ بی بی سی نے ایس ایچ او تھانہ وانا نعمان وزیر کے حوالے سے بتایا کہ واقعہ افطار سے چند منٹ پہلے پیش آیا اور اس میں عارف وزیر کو تین گولیاں لگی تھیں۔ پولیس ذرائع نے بتایا کہ عارف وزیر کو جمعہ کی رات کو ڈیرہ اسماعیل خان سے اسلام آباد منتقل کیا گیا تھا۔ پارٹی ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق عارف وزیر کا پانچ گھنٹے کا طویل آپریشن ہوا تھا۔ تاہم، وہ جاںبر نہ ہو سکے۔ عارف وزیر کے قریبی ذرائع کے مطابق عارف وزیر کی تدفین وانا میں کی جائے گئی۔ جس کی مکمل تیاریاں کی جا رہی ہیں۔
پولیس کے پاس سے ملنے والی اب تک کی معلومات کے مطابق جب نامعلوم حملہ آوروں کی جانب سے عارف وزیر کی گاڑی پر فائرنگ ہوئی تو اس وقت موقع پر موجود لوگوں نے بھی حملہ آور کی گاڑی پر فائرنگ کی تھی مگر وہ پھر بھی فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ جس کے بعد اب امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ عارف وزیر کے قاتلوں کو ڈھونڈنے میں آسانی ہوگی۔
آخری اطلاعات کے مطابق وانا میں پولیس پھیل چکی ہے اور سرچ آپریشن جاری ہے جب کہ وانا اور پورے وزیرستان میں ہر گاڑی کی تلاشی لی جا رہی ہے، اور نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
اس وقت جنوبی وزیرستان کے سیاسی منظر نامے پر ایک بار پھر خون کے چھینٹے پڑے ہیں اور سرزمین کے بیٹے کے قتل پر عوام اضطراب کا شکار ہیں۔ بی بی سی کے مطابق عارف وزیر کا شمار جنوبی وزیرستان کی اہم شخصیات میں ہوتا ہے۔ یہ جنوبی وزیرستان کے اہم مشران میں سے ایک تھے۔ عارف وزیر علاقائی سیاست میں بھی فعال کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ عارف وزیر زمانہ طالب علمی ہی سے قوم پرست سیاست میں فعال کردار ادا کرتے تھے۔ زمانہ طالب علمی میں وہ پختوںخواہ ملی سٹوڈنٹس فیڈریشن کے رہنما تھے۔ ان کا شمار پشتون تحفظ موومنٹ کے اہم اور بانی رہنماوں میں کیا جاتا ہے۔ پی ٹی ایم کے ساتھ وابستگی کے بعد گذشتہ دو سالوں کے دوران ان پر مختلف مقدمات قائم ہوئے تھے۔ اور انہوں نے آخری 24 ماہ میں سے 15 ماہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں گزارے تھے۔ ان پر دائر مقدمات تاحال مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں جب کہ وہ اب دنیا میں نہیں رہے۔ وہ تین بھائی تھے جب کہ تینوں بھائیوں میں سے صرف عارف وزیر ہی سیاست میں فعال کردار ادا کرتے تھے۔ رکن قومی اسمبلی محسن داؤڑ کے مطابق ان کے والد اور بھائی کو اس سے قبل دہشتگرد قتل کر چکے ہیں۔
عارف وزیر ممبر قومی اسمبلی علی وزیر کے کزن ہیں، اور یہ اس خاندان کے 18ویں شخص ہیں، جنہیں مبینہ طور پر طالبان نے قتل کیا ہے۔
پشتون تحفظ مومنٹ نے اسے ایسی دہشتگردی کی واردات قرار دیا ہے جس کو ریاستی پشت پناہی حاصل تھی۔ ساتھ ہی اپنے پرانے دعوے کو بھی دہرایا گیا جس میں کہ پی ٹی ایم کی قیادت نے قبائلی علاقوں میں دہشتگردوں کی واپسی کے بارے میں نشاندہی کی تھی۔
اس حوالے سے محسن داؤڑ کا کہنا تھا کہ ہم بار بار بتا رہے ہیں کہ اس وقت دہشت گرد وانا اور وزیرستان میں دندناتے پھر رہے ہیں جہاں انہوں نے اپنے دفاتر قائم کررکھے ہیں اور وہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ عارف وزیر پر دہشت گردوں نے فائرنگ کی ہے اور ان کو ریاستی پشت پناہی حاصل تھی۔ محسن داؤڑ کا کہنا تھا کہ ’یہ حملہ ہمیں مشتعل کرنے کی سازش ہے تاکہ امن وامان کا مسئلہ پیدا ہو اور حالات سنگین ہوں مگر پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکنان مشتعل نہیں ہوں گے اور پرامن طور تحریک کو جاری رکھتے ہوئے بھرپور احتجاج کریں گے‘۔ یاد رہے کہ اس وقت ٹویٹر پر ہیش ٹیگ #StateKilledArifWazir سب سے نمایاں طور پر ٹرینڈ کر رہا ہے۔