ہائے، بڑا ظلم کیا مقدس گائے سے معافی منگوا کر

ہائے، بڑا ظلم کیا مقدس گائے سے معافی منگوا کر
ہندوؤں سے سخت اختلاف تھا، رفع ہو گیا کہ گائے مقدس ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پرویڈیو وائرل ہوئی کہ صرف گائے مقدس نہیں ہوتی، اونٹ بھی مقدس ہوتا ہے۔ گھوڑے بھی مقدس ہوتے ہیں مگر جب تک ریس جیتتے رہتے ہیں۔ علمی جہالت ہے۔ کئی اور بھی چوپائے مقدس ہوتے ہوں گے مگر گائے اعلیٰ مقام پر فائز ہے۔ یعنی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔

ہندو دوست سے کافی عرصہ پہلے گائے کی تقدیس پر تبادلہ خیال سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ گائے کو گاؤ ماتا کیوں کہا جاتا ہے اور گائے مقدس کیوں ہوتی ہے۔ موصوف کا کہنا تھا کہ ماں بچے کو دودھ پلاتی ہے۔ گائے کا بھی ہم دودھ پیتے ہیں۔ اس نسبت سے گاؤماتا ہے۔ جہاں تک تقدس کا سوال ہے تو گائے دودھ کے ساتھ ہمیں روٹی پکانے کا ایندھن بھی فراہم کرتی ہے۔ روزگار کا بھی ذریعہ ہے۔

گائے کی تقدیس کے ہزار پہلو ہیں۔ خوبصورت پہلو ہے کہ عمر رسیدہ ہونے پر تقدس مزید بڑھ جاتا ہے۔



پاکستان میں یوں تو ہر طبقہ بلا تفریق رنگ و نسل اور مذہب و مسلک گائے کے تقدس کا قائل ہے مگر صوبہ پنجاب میں گائے کی تکریم عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ روگردانی پر فوری فتاویٰ آتے ہیں اور ایمان خطرے میں ہے کہ گھنٹے بجائے جاتے ہیں۔ سٹرکوں پرنکل کر واویلہ کیا جاتا ہے۔

گائے پسندی میں ہم یکتا قوم ثابت ہوئے ہیں۔ اس یقین کے ساتھ تقدیس خوانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں کہ ہم اگر زندہ ہیں تو مقدس گائے کے طفیل ہیں وگرنہ ہڑپ کر لیے گئے ہوتے۔

انتہائے عشق کی ولولہ انگیزیاں اپنےعروج پر ہیں۔ ماہِ رمضان کی بابرکت ساعتوں میں ٹولیوں کی ٹولیاں نوحہ کناں ہیں کہ ستم ہوا کہ سچ بول کر گنہگاروں سے معافی مانگ لی گئی ہے جب کہ جھوٹوں اور فریب کاروں کو معافی مانگنے کی ضرورت ہے۔ جنہوں نے سقراط سے بھی بڑا پاپ کیا ہے۔ عذاب الٰہی کو دعوت دی ہے۔ جھوٹے اور فریبی اپنی غلطی کا مداوا کریں اور فوری معافی مانگ لیں۔

مبارک ہو، مبارک ہو۔ یارانِ وطن نے تو مہر ثبت کر دی ہے اور عملی طور پر عالی مرتبت قرار دینے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ہے۔ بعد اس کے کس کی مجال ہے کہ لب کشائی کی جرأت کرے؟ ہم نوالہ و ہم پیالہ تو دور کی بات ہے، جرأت اظہار پر خون کے رشتے دشمن ہو جاتے ہیں۔ جگ بیتی کیا بتائیں، ہڈ بیتی ہے۔

مگر دیوانوں کا کوئی کیا کرے؟ بات ہی وہ کرتے ہیں جو کسی کو پسند نہیں ہوتی۔ الزام آتے ہیں کہ الحاد پسند ہیں۔ حب الوطنی سے عاری ہیں۔ باہر سے احکامات لیتے ہیں۔ اپنے ملک کے پسے ہوئے طبقات کے حقوق پر بات کرتے ہیں۔ کبھی یہ عورت مارچ کی حمایت کرتے ہیں۔ مگر انہیں جو کہا جاتا ہے، وہ نہیں کرتے ہیں۔ جھوٹے ہیں، مکار، فریبی ہیں، یہاں تک کہ غدار ہیں۔ اسلام دشمن ہیں۔ ملک دشمن اور کافروں کے ایجنٹ ہیں۔ یہی کہنا ہے اور آپ بھی کنبہ مقدسیہ میں کوالیفائی کر سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا سمیت مین سٹریم میڈیا میں کئی جتن کر رہے ہیں اور کرتے رہتے ہیں۔

مقدس گائے کا کنبہ وسعت اختیار کر رہا ہے۔ پہلے یہ اعزاز یکتا رہا ہے مگر اب کچھ بھیڑیں بھی مقدس گائے کی جگالی کرتی نظر آتی ہیں۔ ایک بھیڑ تو حد سے گزر جانے کو بے تاب ہے۔ بے تابی تو سب میں مگر مذکورہ کچھ زیادہ ہی آگے آگے چلنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ اپنے ہم راہیوں کی طرح اخلاقیات کی شرح بھی اس کی اپنی ہے۔ قوی امید ہے کہ مستقبل قریب میں مقام اسی کا ہے۔ یعنی حالیہ انٹری کے بعد دوسری انٹری کی حق دار قرار پائے گی۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔