مرد جب روتے ہیں تو ان کے آنسو عام طور پر نظر نہیں آتے، کیونکہ وہ اپنے جذبات کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ معاشرتی دباؤ کی وجہ سے مردوں پر ہمیشہ سے یہ توقع رہی ہے کہ وہ مضبوط رہیں اور اپنے آنسوؤں کو قابو میں رکھیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ مرد بھی دل سے روتے ہیں، وہ بھی ٹوٹتے ہیں اور ان کے دل میں بھی درد ہوتا ہے۔
ایک باپ اپنی بیٹی کی شادی کے وقت اسے رخصت کرتا ہے، وہ مسکراتا ہے، دوستوں اور عزیزوں سے باتیں کرتا ہے، لیکن جب وہ کمرے میں اکیلا ہوتا ہے، تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑتا ہے۔ اس لمحے وہ اپنی بیٹی کو کسی اور کے حوالے کر رہا ہوتا ہے، اور یہ احساس اسے اندر سے دکھ دیتا ہے۔ یہ کوئی کمزوری نہیں، بلکہ ایک باپ کی محبت کا اظہار ہے، جسے وہ اپنی آنکھوں کے آنسوؤں میں چھپائے رکھتا ہے۔
اسلامی تاریخ میں بھی ایسے واقعات ملتے ہیں جہاں مردوں نے اپنے جذبات کا اظہار آنسوؤں سے کیا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کی جدائی میں رونا ایک عظیم مثال ہے۔ وہ اتنے دکھی ہوئے کہ ان کی بینائی چلی گئی۔ ان کا رونا اس بات کا ثبوت تھا کہ مرد بھی محبت میں اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ اپنی محبت کو برداشت کرتے ہیں، لیکن کبھی کبھی وہ اس محبت میں ٹوٹ بھی جاتے ہیں۔
جب ماں کا انتقال ہوتا ہے، تو مردوں کا دل دکھ سے بھر جاتا ہے۔ ماں کے جانے کا درد ان کی زندگی میں ایک خالی جگہ چھوڑ دیتا ہے، جو کبھی بھی پر نہیں ہو سکتی۔ مرد اس وقت روتے ہیں جب وہ اپنے بچوں کے لیے کچھ نہ کر سکیں، جب ان کے بچے کسی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں اور وہ بے بس ہو جاتے ہیں۔
مردوں کا رونا ہمیشہ کسی بڑی آزمائش یا محرومی کے وقت ہوتا ہے۔ وہ روتے ہیں جب انہیں احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی ضروریات پوری نہیں کر سکے۔ یہ آنسو ان کے اندر چھپے جذبات کی عکاسی کرتے ہیں، لیکن وہ ہمیشہ انہیں دنیا سے چھپاتے ہیں۔
آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ مرد بھی انسان ہیں۔ ان کے دل میں بھی جذبات ہوتے ہیں، اور وہ بھی محبت کرتے ہیں۔ لیکن معاشرتی توقعات کی وجہ سے وہ اپنے آنسوؤں کو دنیا سے چھپاتے ہیں۔ مردوں کا رونا ان کی انسانیت کی علامت ہے، نا کہ کمزوری کی۔