Get Alerts

صحرائے تھر میں بارش اور ہریالی سے مقامی لوگوں کی زندگیاں مسکرا اٹھیں

بارش کے پانی پر گزارا کرنے والے تھر کے باسی اپنی زمین کے اس روپ پر خوش ہیں اور روایتی فصلوں کے لیے بیل جوت چکے ہیں۔ صحرا میں تاحد نگاہ ہریالی کا اگنا تھر کو ایک نیا روپ دے چکا ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

صحرائے تھر میں بارش اور ہریالی سے مقامی لوگوں کی زندگیاں مسکرا اٹھیں

سندھ کے مشرقی حصے میں بھارتی سرحد سے متصل اور 20 ہزار مربع کلومیٹر پر محیط صحرائے تھر دنیا کے دیگر صحراؤں سے یکسر منفرد ہے۔ قحط سالی کے دوران صحرائے تھر بنجر اور ویران نظر آتا ہے۔ میلوں تک پھیلے ریت کے ٹیلے، اجڑے ہوئے اور سبزہ تو دور، صحرائی درخت بھی سوکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہر طرف ویرانی اور افلاس کا راج ہوتا ہے لیکن اگر مون سون بارشیں یہاں کا رخ کر لیں تو یہ منفرد صحرا اپنی صورت بدل لیتا ہے۔

تھر میں شدید قحط سالی کے دوران انسانوں کے لیے خوراک اور مویشیوں کے لیے چارہ ختم ہو جاتا ہے۔ ایسے میں مقامی لوگ اپنے مویشیوں کے ساتھ نقل مکانی کر کے سندھ کے ان اضلاع میں چلے جاتے ہیں جہاں دریائے سندھ کے پانی پر زراعت ہوتی ہے جنہیں بیراجی علاقہ جات کہا جاتا ہے۔ بارش کے بعد وہ لوگ واپس اپنے گھروں کو لوٹنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس سال بھی بارشوں نے صحرائے تھر کا رخ کیا ہے اور سندھ کے بے آب و گل صحرائی علاقے تھر میں بادلوں کی اٹکھیلیوں نے علاقے کا نقشہ تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ حالیہ بارشوں کے سلسلوں کے بعد تھر کی خشک اور پیاسی زمین ہریالی کا چوغہ اوڑھے دکھائی دیتی ہے۔

بارش کے پانی پر گزارا کرنے والے تھر کے باسی اپنی زمین کے اس روپ پر خوش ہیں اور روایتی فصلوں کے لیے بیل جوت چکے ہیں۔ صحرا میں تاحد نگاہ ہریالی کا اگنا تھر کو ایک نیا روپ دے چکا ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک طرف بارشوں سے صحرا میں ہر طرف آنے والی ہریالی، ندی نالوں میں پانی اور خوبصورت پہاڑوں سے بہتے جھرنوں کے دلفریب مناظر نے تھر کے صحرا کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیے ہیں تو دوسری جانب خشک ڈیم بھی پانی سے بھر گئے ہیں۔

بارش کے بعد ملک بھر سے سیاح تھر کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے آتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق صرف اگست کے پہلے دو ہفتوں میں ہی 10 لاکھ سیاح آ چکے ہیں۔ ہم نے بھی سندھ کے اس خوبصورت صحرا کا رخ کیا اور کراچی سے سیدھا مٹھی پہنچے جو کہ 320 کلومیٹر کا فاصلہ بنتا ہے اور آپ اگر کار میں سفر کریں تو ساڑھے 5 گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔ جیسے ہی بدین کراس کر کے تھر کی حدود میں داخل ہوئے تو پورے صحرا نے سبز چادر اوڑھے ہوئی تھی اور اس وقت بھی ہلکی بوندا باندی جاری تھی۔ مٹھی میں ہم نے بریک لگائی اور ناشتے سے دل افروز کیا، جس کے بعد مٹھی شہر کا چکر لگایا۔ بارش کی وجہ سے لوگوں کے چہروں پہ مسرت نمایاں تھی۔

مٹھی شہر ضلع تھرپارکر کا انتظامی ہیڈکوارٹر بھی ہے۔ یہاں کی ہر سڑک پکی ملی، جبکہ ڈرینیج کا نظام بھی خاصا فعال دکھائی دیا کیونکہ ہم وہاں موجود ہی تھے تو آدھا گھنٹہ تیز بارش ہوئی اور وقفے وقفے سے بارش کا سلسلہ جاری رہا لیکن کہیں بھی کوئی گلی یا نالہ بارش کے پانی کی وجہ سے بند نہیں ملا۔ اس کے علاوہ یہ شہر مذہبی رواداری کے حوالے سے بھی خاصی پہچان رکھتا ہے جہاں سالوں سے ہندو مسلمان ساتھ رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے تہوار بھی یہاں ساتھ منائے جاتے ہیں۔ ساتھ میں یہ شہر موسیقی اور ادب کا بھی مرکز مانا جاتا ہے۔ صادق فقیر، مائی بھاگی سمیت کئی نامور فنکاروں کا تعلق بھی اسی شہر سے جڑا ہے۔

بہرحال مٹھی کو ہم نے دن 12 بجے الوداع کہا اور ننگرپارکر کی طرف اپنا سفر شروع کیا۔ مٹھی شہر سے ننگرپارکر کا فاصلہ 129 کلومیٹر ہے۔ سڑک کے دونوں اطراف سے ہریالی، دلکش نظاروں اور پرندوں کی خوبصورت آوازوں نے ہمیں اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔ مٹھی اور ننگرپارکر کے بیچ سلام کوٹ شہر آتا ہے جس کو نیم کا شہر (نیم کے درختوں کا شہر) بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں ہم تھوڑی دیر چائے کے لیے رکے اور مقامی لوگوں سے بات چیت کی۔ سلام کوٹ سے تھوڑا ہی آگے تھرکول فیلڈ کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے جو 9000 سکوائر کلومیٹر رقبے پہ محیط ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق تھرکول پروجیکٹ سے تھر کے قدرتی ماحول پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

الائنس فار کلائمینٹ جسٹس اینڈ کلین انرجی کی تحقیق کے مطابق خطے میں کوئلے کی کان کنی اور کوئلے پر مبنی بجلی کی پیداوار سے مقامی لوگوں کی طرف سے استعمال کیے جانے والے پانی میں خطرناک حد تک کیمیکلز اور مضر صحت دھاتوں کی مقدار زیادہ ہو گئی ہے جس سے انسانوں سمیت جانداروں کی صحت کے لیے خطرہ بڑھ چکا ہے۔ ساتھ میں اتنے بڑے رقبے پر پھیلے کول پلانٹ کی وجہ سے سینکڑوں دیہات پلانٹ کی زد میں آ چکے ہیں جس وجہ سے آبادکاری کا مسئلہ بھی اپنی جگہ ہے۔

اس کے ساتھ ہم نے سلام کوٹ کو الوداع کہا اور ننگر کی طرف اپنا سفر جاری رکھا۔ مغرب سے پہلے ہم ویراواہ چیک پوسٹ پر پہنچ چکے تھے جہاں گاڑیوں کی لمبی لائنیں لگی ہوئی تھیں۔ یہ پاکستان رینجرز کی چیک پوسٹ ہے جہاں باہر سے آنے والے سیاحوں سمیت تھر کے مقامی لوگوں کے بھی شناختی کارڈ چیک کر کے آگے ننگر کے لیے جانے دیا جاتا ہے۔ رینجرز کے رویے پر سیاحوں سمیت مقامی لوگ ناراض دکھائی دیے کیونکہ سیاحوں کی اتنی بڑی تعداد کے باوجود چیک پوسٹ پر صرف دو لوگوں کا عملہ انٹری کر رہا تھا جس وجہ سے گھنٹوں انتطار کرنا پڑا۔ بالآخر ہماری باری آئی اور ہم ننگر پارکر میں انٹر ہو گئے۔ راستے میں بھوڈیسر کا علاقہ گھوما جہاں تاریخی بھوڈیسر مسجد بھی دیکھی جس کو گجرات کے حکمران محمود شاہ نے 1230 عیسوی میں تعمیر کروایا تھا۔ تب تک رات ہو چکی تھی لیکن ہماری خوش قسمتی کہ رات چاندنی تھی اور کارونجھر پہاڑ اپنی پوری آب و تاب سے جلوہ گر تھا۔ وہاں سے سیدھا ہم میزبان کی اوطاق پہ گئے، تھوڑا آرام کیا اور پھر رات کے پہر میں ہی کارونجھر پہاڑ پر نکل گئے جہاں اور بھی کئی سیاح پہلے سے موجود تھے۔

کارونجھر پہاڑ کی آغوش میں ہم بیٹھ گئے جہاں سے انڈین بارڈر کی بتیاں بالکل واضح نظر آ رہی تھیں۔ وہاں کارونجھر کے مقامی لوگوں سے گفتگو کی جو کہ ہمارے میزبان بھی تھے۔ کارونجھر کی کٹائی کے خلاف ' کارونجھر سجاگی فورم' کے پلیٹ فارم سے کئی سالوں سے کارونجھر بچاؤ مہم چلا رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں کارونجھر کٹائی معاملہ اور بھی سنجیدہ ہو چکا ہے۔ جب سے حکومت سندھ نے کارونجھر رینج کا کچھ علاقہ کھارسر سائٹ گرینائٹ کی مائننگ کے لیے لیز پہ دینے کا اعلان کیا۔ تب سے مقامی لوگوں، ماحولیاتی تحفظ کے کارکن اور سول سوسائٹی اس عمل کے خلاف قانونی چارہ جوئی اور سیاسی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

کارونجھر سجاگی فورم کے رہنما ذوالفقار کھوسو نے بتایا کہ ہم کئی سالوں سے کارونجھر کی کٹائی اور مقامی لوگوں کے مسائل کو اپنی سطح پر اور سوشل میڈیا کے توسط سے اجاگر کر رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کارونجھر کا پورا علاقہ سیاحتی مقامات سے بھرا ہوا ہے لیکن حکومتی سطح پر سیاحوں کی سہولیات کے لیے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ایک اور مقامی رہنما مصطفیٰ دل نے بتایا کہ کارونجھر کی کٹائی، پینے کے پانی سمیت یہاں بارڈر کا بھی بڑا مسئلہ ہے۔ یہاں ایسے کئی خاندان مقیم ہیں جن کے رشتہ دار بارڈر کے اس پار رہتے ہیں ان کو ملنے کے لیے لاہور واہگہ بارڈر سے جانا پڑتا ہے جو ہزاروں کلومیٹر دور ہے اور دس گنا مہنگا بھی پڑتا ہے۔ کارونجھر کے دامن میں تھر کی خوبصورتی، سیاحت اور مقامی کے لوگوں کے مسائل پہ ہماری گفتگو جاری رہی اور وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔

رات کا کھانا لگا اور پھر ہر کوئی اپنے بستر پہ آرام فرما ہوا۔ صبح ہوئی، آنکھ کھلی تو چائے پی کر ہم ننگرپارکر شہر گھومنے نکلے اور ننگرپارکر میں واقع جین مندر بھی گھوما جو جین مذہب کے ماننے والوں کا 2000 سال پرانا مندر ہے۔

شہر میں کارونجھر پہاڑ کے ساتھ روپلو کولہی میوزیم بھی بنا ہوا ہے جس میں تھر کے نامور کرداروں کے مجسمے، ثقافتی اور علاقائی نوادرات رکھی ہوئی ہیں جو آنے والے سیاحوں کو تھر کے بارے میں کافی آگہی فراہم کرتا ہے۔

اسی دن مقامی افراد اور سول سوسائٹی کی جانب سے شہر میں کارونجھر بچاؤ احتجاجی ریلی منعقد کی گئی تھی جس کی قیادت سیاسی رہنما سندھو نواز اور کارونجھر سجاگی فورم کے سربراہ چاچا اللہ رکیو کھوسو کر رہے تھے۔ ریلی میں مقامی لوگوں، سندھ کے کئی شہروں سے آنے والے مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد اور سیاسی کارکنوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی جنہوں نے کارونجھر کی کٹائی کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔

اس کے ساتھ ہی ہماری واپسی کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ ہم نے میزبانوں سے اجازت طلب کی اور اس امید کے ساتھ واپسی کا سفر شروع کیا کہ تھر کے باسی کارونجھر کے وقار پر کبھی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ یہ خطہ اس سال کی طرح ہر سال سرسبز و خوشحال ہو اور تھر کی تہذیب، ثقافت اور روایتیں سدا سلامت رہیں۔