اسلام آباد ہائی کورٹ کے 8 ججز کو گذشتہ روز دھمکی آمیز مشکوک خط موصول ہوئے تھے جن میں ایک خاص قسم کا پاؤڈر موجود تھا اور ان پر مختلف شکلیں بنی ہوئی تھیں۔ اس واقعہ کے بعد آج لاہور ہائی کورٹ کے 4 ججز کو بھی مشکوک خط موصول ہوئے ہیں اور اطلاعات ہیں کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ سمیت سپریم کورٹ کے 5 ججز کو بھی آج اسی نوعیت کے خطوط موصول ہوئے ہیں۔ ایسے میں ذہنوں میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ججز کو ایسے خطوط براہ راست کیسے موصول ہو جاتے ہیں؟
لاہور ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی میں شامل 4 ججوں کو مشکوک خط موصول ہوئے ہیں۔ خطوط کے مشکوک ہونے کا علم خط کو کھولنے کے بعد ہوا اور اس خط میں سے پاؤڈر نکلا تھا جس کی اطلاع ہائی کورٹ کے دیگر ججوں اور پولیس کو بھی دی گئی۔ ڈی آئی جی آپریشنز علی ناصر رضوی اپنی ٹیم کے ساتھ موقع پر پہنچے۔ فوری طور پر سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی اور عدالتی عملے کو آئندہ ایسا کوئی خط وصول نہ کرنے کی بھی ہدایات جاری کر دیں۔ چیف سیکرٹری پنجاب زاہد اختر زمان نے بھی اطلاع ملنے پر لاہور ہائی کورٹ کا رخ کیا اور سینیئر ترین جج جسٹس شجاعت علی خان سے سی سی پی او، ڈی آئی جی سمیت دیگر افسران نے چیمبر میں ملاقات کی اور ججوں کو موصول ہونے والے خطوط پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کی فرانزک ٹیم بھی لاہور ہائی کورٹ پہنچی اور انتظامی کمیٹی کے 4 ججوں کو موصول ہونے والے خطوط کو بطور ثبوت قبضے میں لے لیا جبکہ اس سے قبل مشکوک خط کی ترسیل کرنے والے نجی کوریئر کمپنی کے ملازم کو بھی ہائی کورٹ سکیورٹی حراست میں لے چکی تھی۔
لاہور ہائی کورٹ ذرائع کے مطابق یہ خط ہائی کورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس شجاعت علی خان، جسٹس مس عالیہ نیلم، جسٹس شاہد بلال حسن اور جسٹس عابد عزیز شیخ کو بھجوائے گئے۔ عدالتی ذرائع بتاتے ہیں کہ عملے نے فاضل جج کے سامنے ہی خط کو کھولا تھا، فاضل جج نے منہ پر ماسک لگا رکھا تھا اور اس وجہ سے پاؤڈر کے اثر سے محفوظ رہے۔ تب فاضل جج نے ساتھی ججوں کو اطلاع کی کہ ایسا مشکوک خط موصول ہوا۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
لاہور ہائی کورٹ میں خطوط کی ترسیل کیسے ہوتی ہے؟
لاہور ہائی کورٹ میں معمول کی آنے والی ڈاک کو جنرل ایشوز برانچ میں بھجوایا جاتا ہے۔ معمول کی ڈاک میں برانچز کے نام سے یا کیسز کے عنوان سے موصول ہونے والی ڈاک کو جنرل ایشوز برانچ میں وصول کروایا جاتا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے ججوں کو بھجوائی جانے والی ڈاک براہ راست ان کے پرسنل اسسٹنٹ کو وصول کروائی جاتی ہے۔ پرسنل اسسٹنٹ فاضل جج کے نام سے آنے والی ڈاک یا خط پر جج کا نام تحریر ہونے کی وجہ سے اس خط کو فاضل جج کے روبرو پیش کر دیتا ہے۔ یوں لاہور ہائی کورٹ کے ججوں کو براہ راست مشکوک خطوط موصول ہوئے ہیں۔
صدر لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اسد منظور بٹ کے بقول ججز پہلے ہی اپنی عدلیہ سے محفوظ نہیں ہیں اور اب یہ نامعلوم لوگ دہشت گرد ہی لگ رہے ہیں جو خوف و ہراس کی فضا پیدا کر رہے ہیں۔ یہ دہشت گردانہ عمل ہے اور لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ایسے عمل کی مذمت کرتی ہے اور ملزموں کی گرفتاری کا مطالبہ کرتی ہے۔ اسد منظور بٹ ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ حکومت کا سکیورٹی سسٹم ٹھیک نہیں ہے اور یہ ججز کے لئے ایک تھریٹ ہے۔ ججوں کو براہ راست ملنے والی ڈاک بھی ایک طرح کا کھلا تھریٹ ہے جس کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ججوں کے نام پر آنے والے خطوط کی پرائیویسی متاثر کئے بغیر ان میں موجود خطرناک مواد نہ ہونے کی تصدیق کر کے ہی ججوں کو وصول کروانے کا نظام بنانے کی ضرورت ہے۔
محکمہ انسداد دہشت گردی اور انویسٹی گیشن ونگ نے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے اور خطوط سے ملنے والا پاؤڈر فرانزک تجزیے کے لئے بھجوا دیا گیا ہے جہاں اس پاؤڈر کی نوعیت کا تعین کیا جائے گا۔ پولیس کے مطابق کوریئر کمپنی کے عملے کو بھی شامل تفتیش کیا جائے گا۔
ڈی آئی جی آپریشنز علی ناصر رضوی کہتے ہیں کہ کیس کی تحقیقات سے متعلق نہیں بتایا جا سکتا، ہائی کورٹ کے 4 ججوں کو خط موصول ہوئے ہیں، ڈاک کیسے موصول ہوئی اور خطوط میں کیا متن لکھا گیا اس بارے میں ڈی آئی جی نے کہا کہ یہ تمام سوالات تفتیش سے متعلق ہیں جن کا جواب تمام ابتدائی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد دیا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول ابھی ہائی کورٹ کے سینیئر ترین ججز سے ملاقاتیں جاری ہیں جیسے ہی کسی حتمی نتیجے پر پہنچے تو میڈیا کو ضرور آگاہ کیا جائے گا۔ ڈی آئی جی علی ناصر رضوی نے اس بات کی تصدیق کی کہ مقدمہ کی تفتیش سی ٹی ڈی کر رہا ہے اور پولیس اس کیس میں معاونت فراہم کرے گی۔