وال سٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق آج سے دو سال قبل تک پاکستان میں کیسز اتنی تیزی سے بڑھ رہے تھے کہ اسکا موازنہ برازیل اور دیگر ایسے ممالک سے ہو رہا تھا کہ جہاں بڑی تعداد میں کرونا کیسز اور اموات بہت زیادہ بڑھ رہے ہیں۔ ماہرین کہہ رہے تھے وزہر اعظم عمران خان کی لاک مخالف پالیسی پاکستان کو لے ڈوبے گی اور خاکم بدہن یہاں موت رقص کرے گی۔ لیکن دو ماہ ہی گزرے کہ ایسا جادو ہوا کہہ کرونا وائرس کے 80 فیصد متاثرین صحت یابہ و چکے ہیں اور نئے کیسز میں بھی 70 سے 80 فیصد کمی آچکی ہے اور اموات کی شرح میں بھی اچانک غیر معمولی کمی آچکی ہے۔ ماہرین اس معاملے پر چکرا کر رہ گئے ہیں اور تاحال یہ سمجھ نہیں آرہی کہ یہ سب کیا ہوا ہے جبکہ اس وقت جب پاکستان کے ہمسایہ ممالک،بھارت سے ایران اور دیگر ممالک میں سب کچھ اس سے الٹ ہے۔ اس حیران کن صورتحال نے ماہرین کو جن سوالات کو جنم دیا ہے اس میں یہ ہیں کہ ایسی کیا عوام رہے کہ پاکستان تباہی کے ان دعوں کو غلط کر سکا؟
اخبار نے اس حوالے سے لکھا ہے کہ پاکستان کے چند خصوصی عوامل اس حوالے سے مدد گار رہے۔ ۔
پاکستان کی آبادی کے خدو خال:
پاکستان کی کل آبادی کا صرف 4 فیصد 65 سال کی زائد کی عمر رکھتا ہے۔ پاکستان میں اوسط عمر 22 سال ہے۔ یہ اوسط عمر برازیل اور اٹلی سے 10 سے 20 سال کم ہے۔
یہاں نائٹ کلبز اور بارز نہیں ہیں جہاں پر زور لگا کر بولنا پڑے اور جہاں اختلاط کے امکانات ہوں۔
خواتین زیادہ تر گھروں میں رہتی ہیں۔ مساجد واحد جگہ ہیں جہاں اختلاط ہوتا ہے تاہم وہاں بھی زور سے بولنے کی ضرورت پیش نہیں آتی اور وائرس کے پھیلاو کا امکان کم ہوتا ہے۔ ملک میں بڑا شہر صرف کراچی ہے جس میں رہائش کے لئے بلند و بالا عمارتیں ہیں۔ جبکہ بھارت میں کئی ایک شہر ایسے ہیں۔
گو کہ حکمران جماعت کے رہنما اس صورتحال کو اپنی سیاسی فتح قرار دے رہے ہیں۔ لیکن اخبار لکھتا ہے کہ وہ مانتے ہیں کہ انکو نہیں معلوم کہ یہ کیسے ہوا؟
انتظامیہ کے لوگ مانتے ہیں کہ کسی کو نہیں معلوم کہ یہ کمی کیسے آرہی ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر سکول، میرج ہالز کھل گئے تو یہ سب واپس ابتر ہوسکتا ہے۔
یہی سوال کہ یہ سب کیسے ہوا ہے۔ اس کے حوالے سے نیا دور کے لئے لکھنے والے تجزیہ کار دانش مصطفی' نے سوالات اٹھائے ہیں کہ بی بی سے لاہور اور کراچی کے قبرستانوں میں معمول سے زیادہ قبریں بننے کی جو رپورٹ دی۔ اسکے مطابق تو یہی ہے کہ کرونا سے ہونے والی اموات کو کم رپورٹ کیا جا رہا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ حکومت نے بہت کم ٹیسٹ کئے وہ بھی انکے جو خود سے ٹیسٹ کرانے آیے نہ کہ رینڈم ٹیسٹنگ کی گئی۔ جس سے یہ نتائج پوری آبادی پر لاگو نہیں کیئے جا سکتے ۔ بی بی سی کے مطابق ملک کے کل ٹیسٹوں کا 50 فیصد تو سندھ میں ہو رہا ہے کے پی اور پنجاب میں تو کم سے کم کیسز بتائے جا رہے ہیں کیونکہ ٹیسٹ ہی کم سے کم ہو رہے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی نکتہ اٹھایا کہ ٹیسٹ کروانے مڈل کلاس اور اپر کلاس سے وہ لوگ آرہے ہیں جو صاحب حیثیت ہیں اور ٹیسٹنگ کرانے سینٹرز تک پینچنے کے لئے اپنی سواری رکھتے ہیں۔
جب بھی رینڈم ٹیسٹنگ کرائی گئی بڑی تعداد میں کرونا کے کیسز نکلے۔ جیسا کہ چترال کے گاوں میں جہاں 40 میں سے 24 میں وائرس تھا۔ ۔
انکے مطابق پاکستان میں باوجود اسکے کہ اموات کے حوالے سے غلط رپورٹ کیا جا رہا لیکن یہاں شرح اموات 2 فیصد کے آس پاس ہی رہی۔ گو کہ غیر مصدقہ اموات کا معاملہ لگ ہے جس کو شامل کر لیا جائے تو یہ شرح 4 فیصد تک بنتی ہے۔ لیکن اسکے باوجود وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں کا لائف سٹائل ویسا نہیں کہ جو اس وائرس کے پھیلاو میں مدد گار ہو۔ جیسا کہ یہاں گھر ہوا دار ہیں۔ عوامی مقامات جیسے کہ پبز وغیرہ ہوا دار نہیں۔ ادھر مساجد مقامی مقامات ہیں جو کہ ہوا دار ہیں۔ جس سے وائرس کا پھیلاو نہیں ہوا۔