معاشی تجزیہ نگار خرم حسین نے کہا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی امریکا کو ٹیلی فون کال اور القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی ڈرون حملے میں ہلاکت سے ہمارے سرمایہ کاروں کو لگا کہ کوئی معاملہ طے پا چکا ہے۔ پاکستان نے ایک ایک بار پھر اپنا جیو پولیٹیکل کارڈ کھیل کر فوائد حاصل کر لئے ہیں۔
یہ بات انہوں نے نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہی۔ خرم حسین نے کہا کہ ڈالر کی قدر میں اضافہ نیچرل لیول پر نہیں تھا، اس نے بالاخر گرنا ہی تھا۔ ہوا یہ ہے کہ جولائی کے مہینے میں پاکستانی کرنسی روپے کے اوپر بہت زیادہ دبائو آیا۔ کیونکہ پاکستان کے ذمہ بہت زیادہ قرض واجب الادا تھا۔ تیل کی مد میں لگ بھگ ایک اعشاریہ 7 ارب کی ادائیگیاں تھیں جو حکومت نے کرنی تھیں۔ آئل کمپینوں نے ان پیمنٹس کو کلیئر کرنے کیلئے تمام ایل سیز کو روکا۔ اس کے علاوہ امپورٹڈ اشیاء پر عائد پابندی کو بڑھایا گیا۔ یہ طریقہ اختیار کرکے ان آئل پیمنٹس کو جولائی کے مہینے میں ادا کیا گیا۔
خرم حسین کا کہنا تھا کہ جب جولائی کے مہینے میں آخری پیمنٹ ہوگئی تو اس کے بعد سے پریشر ایک دم سے اترنا شروع ہوا۔ کیونکہ پاکستانی کرنسی پر سب سے بڑا جو پریشر آتا ہے وہ تیل کی ادائیگیوں کی وجہ سے ہی آتا ہے۔ تو یہ والا پریشر ہٹا تو اسی ٹائم میں جب روپے کی قدر میں اضافہ ہونا شروع ہوا تو ہمارے امپورٹرز دیکھ رہے تھے کہ ہم اپنے ایکپسورٹس پروسیڈز واپس کب لائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس قانون کے مطابق 120 دن کا وقت ہوتا ہے۔ وہ انتظار کررہے تھے کہ یہ لیول اپنی اونچائی پر پہنچے تو پھر اس کو واپس لایا جائے تاکہ ان کو زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ لیکن کیونکہ یہ نارمل صورتحال نہیں تھی، اس لئے تمام سرمایہ کار اپنا پیسہ روک کر بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ درمیان میں ایک دو واقعات بھی رونما ہوئے۔ پہلی چیز تو یہ کہ آئی ایم ایف کی جانب سے ایک دم یہ بیان جاری کر دیا گیا کہ تمام کنڈیشنز اور شرائط کو پاکستان کی جانب سے پورا کر دیا گیا ہے۔ تاہم 4.2 ارب ڈالر کا خلا اگر پورا کر لیا گیا تو یہ کیس ایگزیکٹو بورڈ کے پاس لے جایا جائے گا اور اس کے بعد پاکستان کو رقم کی ادائیگی شروع کر دی جائے گی۔
خرم حسین نے کہا کہ دوسری چیز جس نے اس سارے معاملے کو سیاسی رنگ دیا، وہ یہ تھا کہ خبر چلی کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکی حکام کو فون کرکے کہا ہے کہ وہ پاکستان کو رقم کی ادائیگی کیلئے آئی ایم ایف پر دبائو ڈالیں۔ اسی فون کی خبر کے چند روز بعد ہمیں پتا چلتا ہے کہ ایک امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری مارے گئے ہیں۔ لوگوں کو ان دو واقعات سے لگا کہ شاید کسی قسم کا ارینجمنٹ ہو گیا ہے۔ اور پاکستان نے اپنا اولڈ جیو پولیٹیکل کارڈ کھیل کر اپنے لئے فوائد حاصل کر لئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ساری چیزیں ملا کر درآمدکندگان نے فیصلہ کیا کہ اب یہی موقع ہے کہ ایکپسورٹس پروسیڈز واپس لے آئیں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ جب ایسی صورتحال ہوتی ہے تو چھوٹے سرمایہ کاروں کی نظریں بڑوں پر ہوتی ہیں۔ پھر دیکھا دیکھی بھیڑ چال چلنا شروع ہو جاتی ہے۔ یہی کچھ گذشتہ روز ہوا۔ پاکستان میں ایک دم ڈالر آنے سے آئوٹ فلو کم ہوا۔
انہوں نے کہا کہ اب سوال یہ ہے کہ آگے جا کر ڈالر کی قدر بڑھے گی یا اس میں مزید کمی آئے گی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایک چیز نظر میں رکھ لی جائے کہ پاکستان کے پاس پاکستان میں تاریخ کے بلند ترین ڈیزل اور پیٹرول کے سٹاکس موجود ہیں۔ اس لئے رواں ماہ اگست کے مہینے میں مشکل ہے کہ اور کوئی امپورٹس ملک میں آئیں گی۔
خرم حسین کا کہنا تھا کہ مجھے اب پاکستانی روپے پر مزید کوئی پریشر آنے کے امکانات نظر نہیں آ رہے۔ رواں ماہ اگست کے اختتام تک بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) کا پروگرام ہونا ہے۔ جو پاکستان جولائی کے مہینے میں ڈیفالٹ کی جانب جا رہا تھا، وہ اب سلسلہ اب رک رہا ہے۔ ملک اب بہتری کی جانب جانا دکھائی دے رہا ہے۔