Get Alerts

تھانہ کلچر اور پولیس اصلاحات

تھانہ کلچر اور پولیس اصلاحات
قیام پاکستان کے بعد سے اب تک پولیس میں اصلاحات ایک بہت بڑا مسئلہ رہا ہے، ہر حکومت نے پولیس کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا ہے۔ حیرت انگیز طور پر سول سروس اور فوج سے پولیس میں جانے والے آفیسر بھی تھانہ کلچر اور پولیس میں تبدیلی لانے میں ناکام رہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ سول سروس اور فوج سے پولیس میں جانے والے بھی پولیس کے رنگ میں رنگتے گئے۔ آج محکمہ پولیس پر ایک سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔ ہر آنے والی حکومت پولیس اصلاحات کی بات کرتی ہے مگر پولیس کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرتے اور اپنے سیاسی مخالفین کو ڈرانے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔

ماڈل ٹاؤن میں قتل عام پولیس اور پولیس کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے والے حکمرانوں کے ماتھے پر ایک بدترین داغ ہے۔ حال ہی میں ساہیوال میں ہونے والا واقعہ بھی یہ ثابت کرتا ہے۔ اگر پولیس آفیسرز کے خلاف تحقیقات شروع ہو جائیں تو کیسے ایک دوسرے کو بچانے کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان حالات میں پولیس اصلاحات بہت ضروری ہیں۔ تھانے عقبوت خانے بن چکے ہیں، عورت تو دور کی بات ہے شریف مرد بھی تھانے جاتے ہوا ڈرتا ہے۔ سرحد پر کوئی فوجی شہید ہو سارا ملک اسے شہید کہتا ہے پولیس والا مارا جائے تو لوگ کہتے ہیں ایک رشوت خور کم ہو گیا ہے۔ سماج میں پولیس کا اعتماد بحال کرنا بہت ضروری ہے۔

پولیس اصلاحات اور پولیس کلچر میں تبدیلی کی بہت بات کی جا رہی ہے۔ لیکن کوئی بھی پولیس اصلاحات اور تھانہ کلچر کی کوئی و اضح حکمت عملی نہیں بتا رہا۔ میں سمجھتا ہوں کہ پولیس کلچر میں تبدیلی کے لیے سب سے پہلے گرفتاری کے اختیار کو محدود کرنے کی ضرورت ہے۔ آج پولیس میں کلچر ہے کہ ایف آئی آر کے بعد گرفتاری پولیس کا حق ہے۔ ادھر ایف آئی آر درج ہوئی ساتھ ہی گرفتاری کی کوششیں شروع ہو گئیں۔ جونہی ایف آئی آر تفتیشی افسر کے ہاتھ میں آتی ہے وہ ملزم کی گرفتاری کے لیے نکل پڑتا ہے۔ تفتیشی افسر کے لیے یہ جاننا اہم نہیں ہوتا کہ ملزم گناہ گار ہے کہ نہیں۔ مدعی کا الزام سچا ہے یا جھوٹا۔ بس فوری ملزم کی گرفتاری ہی تفتیش کا نقطہ آغاز سمجھا جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پولیس کا نظام تفتیش اور ہمارے نظام انصاف میں بھی واضح اختلاف ہے۔ پولیس کی تفتیش کا نقطہ آغاز ملزم سے ہوتا ہے جب کہ نظام انصاف میں ملزم کی کوئی اہمیت نہیں۔

عدالت میں مدعی نے اپنا الزام اپنی گواہیوں کے سر پر سچ ثابت کرنا ہوتا ہے۔ ملزم کی مرضی ہے کہ وہ کوئی بات کرے یا نہ کرے۔ خاموش رہنا اس کا حق ہے۔ جب کہ پولیس مدعی سے کچھ پوچھتی ہی نہیں ہے۔ وہاں سارا زور ملزم پر لگایا جاتا ہے۔ ملزم نے ہی اپنی بے گناہی ثابت کرنی ہے۔ اپنی بے گناہی میں ثبوت لانا بھی ملزم کی ذمے داری ہے۔ جبکہ دوسری طرف عدالت میں الزام کو ثابت کرنا مدعی کا کام ہے۔ الزام کو سچ ثابت کرنا مدعی کا فرض ہے۔ ملزم کی کوئی ذمے داری نہیں ہے۔ پولیس اور نظام انصاف کے کام میں یہ اختلاف ہی وہ تضاد ہے جس کی وجہ سے کام نہیں ہو رہا۔

روزانہ ہزاروں جھوٹی ایف آئی آرز میں ہزاروں بے گناہ گرفتار ہو تے ہیں۔ بے گناہ لوگوں کی گرفتاریاں پولیس اور نظام انصاف پر ایک بوجھ ہیں۔ عدالتوں پر ضمانتوں کا بوجھ، پھر پولیس کی گرفتاری کے خوف سے ضمانت قبل از گرفتاری کا بھی عدالتوں پر بہت بوجھ ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ گرفتاری اور ضمانت کے اس کھیل نے فوجداری مقدمات کو ضمانت اور گرفتاری کی حد تک محدود کر دیا ہے۔

مدعی کی جانب سے ایف آئی آر کا واحد مقصد ملزم کی گرفتاری ہے۔ جبکہ ملزم کے نزدیک بھی ایف آئی آر سے نبٹنے کا واحد مقصد گرفتاری سے بچنا ہی ہے۔ ٹرائل کی اہمیت ہی ختم ہو گئی ہے۔ کسی کو ٹرائل پر یقین ہی نہیں رہا۔ ادھر ضمانت اور گرفتاری کا معاملہ حل ہوا، ادھر ایف آئی آر بھی ختم ہو گئی۔ افسوس کی بات ہے کہ تفتیشی افسران بھی ضمانت کے بعد کیس کو ختم ہی سمجھتے ہیں۔ جونہی ملزم کو ضمانت مل جاتی ہے تفتیش ختم کر دی جاتی ہے۔ تفتیشی افسر ایسے کسی شخص سے تفتیش کرنا مناسب ہی نہیں سمجھتا جس کے پاس ضمانت موجود ہو۔ پولیس میں یہ رائے بن گئی ہے ضمانت کے بعد تفتیش ممکن نہیں۔ اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ کیوں پولیس یہ سمجھتی ہے کہ جب تک ملزم اس کی حراست میں نہ ہو تفتیش ممکن نہیں۔ کیوں تفتیش کے لیے جسمانی ریمانڈ لازمی ہے۔ کیا تفتیش کے نئے اور جدید ایسے طریقے نہیں آگئے کہ جس میں تفتیش کے لیے جسمانی ریمانڈ کی کوئی ضرورت نہیں۔

آج آئی جی پنجاب کو چاہیے کہ وہ پولیس میں گرفتاری کے اختیارات کو محدود کرنے پر زور دیں۔ اگر کوئی بھی تفتیشی افسر کسی بھی ملزم کو غیر ضروری طور پر گرفتار کرے تو اس کے خلاف سخت ایکشن ہونا چاہیے۔ جب کوئی پولیس کی تفتیش میں معاونت کی یقین دہانی کروا دے تواس کو تھانے میں پولیس افسر سے ہی ضمانت ملنی چاہیے۔ لوگوں کو بے وجہ عدالتوں کے چکر لگانے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ اگر آج آپ تفتیشی افسر کو تفتیش میں اپنا بیان لکھنے کے لیے کہیں تو وہ کہتا ہے پہلے ضمانت کروا کر آئیں پھر بیان لکھوں گا۔ کیا یہ خلاف قانون نہیں۔ اس طرح ایک بے گناہ کو بھی عدالتوں کے چکر لگانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ آئی جی صاحبان کو چاہیے کہ تفتیش میں جب تک مدعی مقدمہ ناقابل تردید ثبو ت فراہم نہ کر دے۔ یا جب تک تفتیش میں ملزم کے خلاف ناقابل تردید ثبوت سامنے نہ آجائیں تب تک کسی کی گرفتاری کو روک دیا جائے۔ گرفتاری سے پہلے ورانٹ گرفتاری جاری کیے جائیں۔ اور وارنٹ جاری کرنے کے بعد ملزم کو گرفتار کیا جائے۔ راتوں کو گھروں میں چھاپے مار کر گرفتاریوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔ یہ کلچر نہ تو پولیس کو کوئی نیک نامی دے رہا ہے اور نہ ہی اس سے نظام انصاف کی کوئی مدد ہو رہی ہے۔ اس کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

آج کل پولیس کی جانب سے تھرڈ ڈگری کے استعمال کی بہت بات ہو رہی ہے۔ یہ اعلان بھی مضحکہ خیز ہے کہ جس تھانہ میں پولیس حراست میں کسی کی ملزم کی موت ہو گی اس تھانے کے متعلقہ افسران کے خلاف ایف آئی آر درج ہو گی۔ کیا یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ ماریں لیکن اتنا نہیں کہ کوئی جان سے چلا جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پولیس میں تھرڈ ڈگری کے استعمال کے بغیر تفتیش ممکن ہی نہیں ہے۔

کیا آج فرانزک سائنس اور تفتیش کی سائنس نے اتنی ترقی نہیں کر لی کہ مارے بغیر حقائق تک پہنچا جا سکے۔ کیوں یہ مانا جاتا ہے کہ جب تک ملزم کو مارا نہ جائے تب تک سچ سامنے نہیں آسکتا۔ یہ سوچ بدلنی ہوگی۔ ایک آئی جی نے مجھے بتایا کہ جب ملزم سچ نہیں بول رہا تھا تو میں نے اپنے ماتحت عملہ سے کہا کہ اس کی شلوار میں چوہے چھوڑو تب یہ سچ بولے گا۔ آج دنیا بدل گئی ہے۔ پولیس کو بھی اپنا طریقہ تفتیش بدلنا ہوگا۔ سچ سامنے لانے کے لیے تھرڈ ڈگری کا استعمال بند کرنا ہوگا، پولی گرافک ٹیسٹ عام کرنا ہوگا۔ اس کی سہولت بڑھانی ہوگی۔ ابھی تو صرف ان ملزمان کا پولی گرافک ٹیسٹ کروایا جاتا ہے جن پر پولیس تھرڈ ڈگری استعمال نہیں کرسکتی۔ جیسے قندیل بلوچ کے کیس میں مفتی قوی کا ملتان سے لاہور لا کر پولی گرافک ٹیسٹ کروایا گیا تھا۔ لیکن قتل اور دیگر جرائم کے تمام ملزمان کو پولی گرافک ٹیسٹ نہیں کروایا جاتا۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ پولی گرافک ٹیسٹ کی سہولت صرف لاہور فرانزک لیب میں موجود ہے۔ جو بہت کم ہے۔ ہر شہر ہر جگہ یہ سہولت موجود ہونی چاہیے۔ پولی گرافک ٹیسٹ کے ماہرین کی بھرتی شروع کرنی چاہیے۔ پنجاب میں تو لاہور کی فرانزک لیب میں سہولت موجود ہے لیکن باقی صوبوں میں تو یہ سہولت بالکل موجود ہی نہیں ہے۔ اس طرح وہاں سچ جاننے کا سارا دارو مدار تھرڈ ڈگری پر ہی ہے۔ آج پولیس کو یہ سمجھنا ہو گا کہ تھرڈ ڈگری پولیس سے پولیس کے لیے معاشرہ میں نفرت بڑھ رہی ہے۔ آج معاشرہ میں شعور آگیا ہے۔ ایسے میں اب پرانے فرسودہ طریقے نہیں چل سکتے۔ پولیس نظام انصاف میں انصاف فراہم کرنے کی پہلی دہلیز ہے۔ غلط تفتیش بھی انصاف کا خون ہے۔ غلط چالان بھی انصاف کا خون ہے۔ آج بے شک پولیس میں غلط تفتیش کے خلاف قانون موجود ہے۔ لیکن اس پر بھی عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔ جس طرح جھوٹی ایف آئی آر درج کروانے کی کوئی سزا نہیں ہے۔ آپ جتنی مرضی جھوٹی ایف آئی آر درج کروائیں نظام انصاف آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اسی طرح ایک تفتیشی افسر جتنی مرضی غلط تفتیش کرے اس کا بھی کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

دنیا بھر میں پولیس کلچر کو ٹھیک کرنے کے لیے نظام تفتیش کو ٹھیک کیا گیا ہے۔ تفتیشی افسر کو اپنی تفتیش کے حوالے سے جوابدہ بنانا ہوگا۔ اگر تفتیشی کسی کو ملزم لکھتا ہے اور وہ بے گناہ نکلتا ہے تو تفتیشی افسر کو جوابدہ بنانا ہوگا۔ دنیا میں اس ضمن میں کیا نظام ہے۔ اس کو دیکھنا ہوگا۔ ہم اس کو کیسے لاگو کر سکتے ہیں۔ اس کو بھی دیکھنا ہوگا۔ جو مدعی ایف آئی آر درج کروا کر عدالت میں گواہی نہیں دیتا۔ اس کو بھی سزا ہونی چاہیے۔ نظام قانون اور نظام انصاف سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ آئی جی پنجاب نے تھانوں میں اسمارٹ فون لیجانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ تا کہ پولیس ٹارچر کی فوٹیج اور فلمیں سامنے نہ آسکیں۔ یہ کوئی خوش آئند کام نہیں ہے۔ انھیں تو ہر تھانے میں ہر جگہ کیمرے لگا دینے چاہیے تھے۔ تا کہ کوئی کسی پر ٹارچر نہ کر سکے۔ شائد ابھی بہت دباﺅ میں ہیں۔ لیکن مجھے امید ہے کہ درست فیصلہ کرنے پر بھی مجبور ہو جائیں گے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔