عمران خان کو اس وقت نااہل ہونے کا ڈر ہے، اب وہ دور گزر گیا جب ان کو عدالتوں سے پہلے والا ریلیف ملتا تھا۔ عمران خان نے کاغذات نامزدگی میں بچوں کی کل تعداد کو ظاہر نہیں کیا۔ آرٹیکل 62 اور 63 کے مطابق ایک اچھا مسلمان ہونا بھی ضروری ہے۔ عمران خان کو اب کاغذات نامزدگی جمع کرواتے وقت بچوں کی تعداد بتانی پڑے گی۔ اگر وہ کسی بچے کو چھپاتے ہیں تو یہ غلط بیانی کے زمرے میں آئے گا، پھر یہ اسی نکتے پر نااہل ہو جائیں گے۔ شریعت کے حساب سے اس بچے کی حیثیت کو دیکھنا پڑے گا جس کا جواب عمران خان نہیں دے پائیں گے۔ اسی بنا پر عمران خان ضمنی الیکشن نہ لڑنے پر غور کر رہے ہیں اور میرے حساب سے عمران خان پاکستان کی انتخابی سیاست سے آؤٹ ہو چکے ہیں۔ یہ کہنا ہے سینیئر صحافی افتخار احمد کا۔
نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئین کے تحت آپ کو اپنے بچوں کو ظاہر کرنا پڑے گا۔ پھر اس ملک کے اسلامی قوانین کے تحت اس بچے کی قانونی حیثیت بھی ثابت کرنا پڑے گا۔ اس کی ایک تو سیاسی سزا ہو گی اور دوسری اسلامی سزا بھی ہو گی۔ تحریک انصاف والے بھی موجودہ دہشت گردی اور دھماکوں کے ذمہ دار ہیں۔ جو 8 ہزار دہشت گرد چھوڑے گئے وہ ان کی مرضی سے چھوڑے گئے۔ ان کی سیاست زیادہ ضروری ہے یا پاکستان اور اس کی سالمیت زیادہ اہم ہے۔ ان کا یہ کیسا رویہ ہے کہ یہ پاکستان کے امن کے لیے بات چیت میں شامل نہیں ہونا چاہتے۔
ان کا کہنا تھا کہ شیخ رشید غیر ذمہ دارانہ گفتگو کے عادی ہو چکے ہیں۔ ان کو بلایا گیا تھا مگر وہ پیش نہیں ہوئے، ان کی گرفتاری کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ انہوں نے گرفتاری کے وقت بھی ڈرامہ کیا گیا تھا اوروہ مسلسل گندی زبان استعمال کر رہے ہیں۔ اس سے تو یہ لگ رہا ہے کہ اس ملک میں طاقتور افراد کچھ بھی کہہ سکتے ہیں اور کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ ن لیگ اور شہباز شریف پر بھی افسوس ہے۔ انہوں نے اپوزیشن میں ہوتے ہوئے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دور کے وقت مؤثر آواز کیوں نہیں اٹھائی، وہ بھی موجودہ دہشت گردی کے ذمہ دار ہیں۔
صحافی رفعت اللہ اورکزئی نے کہا کہ تحریک انصاف کہہ رہی ہے کہ ہم انتقام لینے والی حکومت کے ساتھ کیسے بیٹھیں، اس طرح کی سیاسی تقسیم سے دہشت گردی کے خلاف جنگ پہ فرق پڑے گا کیونکہ اس کے لیے قومی اتفاق کی ضرورت ہے۔ کے پی کے میں تحریک انصاف 9 سال حکومت میں رہنے کے باوجود بھی ایسا رویہ رکھ رہی ہے تو افسوس والی بات ہے۔ پی ٹی آئی نے آج کے پی کے میں سفید جھنڈے لہرا کر امن مارچ بھی کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج ایپکس کمیٹی کی بہت اہم میٹنگ ہوئی ہے جس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے علاوہ آزاد کشمیرکے وزیراعظم اور آرمی چیف بھی شریک ہوئے۔ اس میٹنگ میں سیف سٹی کے پراجیکٹ کو مکمل کرنے سمیت کئی اہم معاملات زیربحث آئے ہیں۔ سی ٹی ڈی کا ایک ہیڈ کوارٹر بنانے کی بات ہوئی ہے، پولیس کی قابلیت اور طاقت کو بڑھانے پر بھی بات ہوئی ہے اور ایک فرانزک لیب بنانے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ عمران خان کے دور میں پولیس کی طاقت میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ پی ٹی آئی کی پالیسی طالبان کی حمایت پر مبنی ہے اور جے یو آئی والے بھی طالبان کے خلاف بات نہیں کرتے۔
تجزیہ نگار مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ تحریک انصاف نے آل پارٹیز میں شرکت سے انکار موجودہ گرفتاریوں کی وجہ سے کیا ہے۔ عمران خان کے دور میں اپوزیشن کے لوگ ہر قومی کانفرنس میں شرکت کرتے تھے۔ 2013 میں ٹی ٹی پی اور پی ٹی آئی نے مل کر الیکشن لڑا، حقانی کے مدرسے کو سرکاری خزانے سے امداد دی گئی، ٹی ٹی پی کے دہشت گرد کس نے رہا کیے اور ان کو افغانستان سے پاکستان کون لے کر آیا تھا۔ تحریک انصاف والے آل پارٹیز کانفرنس میں جا کر ٹی ٹی پی کی نظر میں اپنا ریکارڈ خراب نہیں کرنا چاہتے۔ نواز شریف کے کیس میں عمران خان نے آرٹیکل 62 اور 63 پر بہت زور دیا تھا، ان کا اس دور میں یہ بھی کہنا تھا کہ آئین کی یہ شقیں برقرار رہنی چاہئیں چاہے وہ خود بھی اس کی لپیٹ میں آ کر نااہل ہو جائیں۔
میزبان رضا رومی نے کہا کہ شیخ رشید نے سیاست میں گندی زبان کے کلچر کو فروغ دیا، وہ سیاسی جلسوں میں بھی اسی طرح کی زبان استعمال کرتے رہے ہیں۔ ان کو 4 نمبر گیٹ والوں نے پال پوس کے بڑا کیا ہے اور یہاں تک پہنچایا ہے۔ وہ بے نظیر کے خلاف بھی گندی زبان استعمال کرتے تھے اور بلاول کے خلاف بھی ایسی ہی زبان استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے خلاف بہت پہلے کارروائی ہو جانی چاہئیے تھی۔
پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ ‘خبر سے آگے’ ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔