پاکستان کے موجودہ سیاسی ماحول کی سب سے اہم صفت پیشگوئی ہے۔ حزب اختلاف کا ہر سیاستدان جوتشی بن چکا ہے۔ سب سے پہلے مولانا فضل الرحمان نے اسلام آباد میں مجمع لگانے کے بعد حکومت دسمبر 2019 اور پھر مارچ 2020 میں ختم کرنے کی پیشنگوئی کی اور واپس اپنے گاؤں چلے گئے۔
پھر عوام نے دیکھا کہ کیسے قائد حزب اختلاف تین دفعہ کے بیمار وزیر اعظم کا ہاتھ پکڑ کر پتلی گلی سے براستہ لاہور ہائیکورٹ لندن پدھار گے۔ وہاں اپنے رفقاء کار کو بلا کر ایک ہوٹل میں کھانے کی دعوت دی۔ آجکل بڑے بھائی کی صحت یابی اور اپنی بھتیجی کی لندن آمد کے منتظر ہیں۔ اسی پس منظر میں ملک کی سب سے معتبر پارٹی کے اَن داتا جناب آصف علی زرداری کو طبی بنیادوں پر ضمانت مل گئی ہے جبکہ ان کے سپوت جناب بلاول بھٹو زرداری نے بے نظیر بھٹو کی برسی پر یہ پیشنگوئی کامل یقین کامل کے ساتھ کر دی ہے کہ 2020 اس حکومت کا آخری سال ہے اور اس کے بعد عوامی یعنی انکی حکومت قائم ہو جائے گی۔
بلاول کی طرف سے حکومت کے لیے آخری سال ہونے کے تذکرے میں ان سے زیادہ زرداری صاحب کی سیاسی بصیرت کا عمل دخل لگتا ہے۔ اگرچہ ضمانت کے بعد جناب زرداری صاحب نے بلاول ہاؤس سے زیادہ ضیا الدین ہسپتال میں قیام کو ترجیح دی ہے جہاں انہوں نے پہلے بھی کئی سال گزارے ہیں۔ ماضی کی اچھی یادوں کو شاید وہ اپنی بیماری کی وجہ سے تازہ تو نہ کر سکیں لیکن یہ ایک اچھے دور کا آغاز ہے۔ جس کا دورانیہ بقول شیخ رشید کے بہت تھوڑا ہے۔ تاہم اس کا فیصلہ مستقبل کے حالات اور وقت پر چھوڑ دینا بہتر ہو گا۔ بلاول نے ماضی قریب میں لاہور میں مٹھی بھر عورتوں اور بچوں سے خطاب میں فرمایا اور اسے ورکرز کنونشن کا نام دیا۔ اب بینظیر کی برسی پر پورے پنجاب سے عوام کو اکھٹا کیا گیا۔ بلاشبہ پاکستان میں جمہوری تاریخ کی سب سے بڑی اور معتبر پارٹی پنجاب میں اپنے وجود کی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے اور نہ صرف وہ اپنے آبائی صوبے تک محدود ہو چکی ہے بلکہ وہ الیکشن کے ڈیڑھ سال بعد ہی سندھ میں کسی ممکنہ تبدیلی سے خوفزدہ بھی نظر آتی ہے۔
بلاول بھٹو نے ناصرف جوش خطابت میں جناب عمران خان کو عسکری طاقتوں کا پٹھو قرار دے کر سلیکٹڈ ہونے کا طعنہ دہرایا اوراسکی نااہلی پر گرجے بلکہ 2020 میں حکومت کے خاتمے کی پیشگوئی بھی کر ڈالی۔وہ جب یہ الفاظ دہرا رہے تھے تو انکی قربت میں جو حضرات موجود تھے ان میں صرف ایک شخص جناب راجہ پرویز اشرف اسمبلی میں اپنی سیٹ رکھتے ہیں جبکہ سینٹرل پنجاب کے صدر تک انتخابات میں شکست خوردہ ہیں اور آجکل کنپٹی پر بندوق رکھ کر صرف بیانات دیتے اور تقریریں کرتے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں:-
پنجاب ہوا کب کا انکاری
رت بدلی خیبر کی ساری
کمائی بلوچوں سے بھی خواری
باقی سندھ میں چند ہی ہاری
بلاول بھٹو زرداری ایک سیاسی المیے کی پیداوار ہیں۔ اگرچہ وہ بے نظیر کی وفات کے بعد بقول عمران خان حادثاتی طور پر پارٹی کے چیئرمین بن گئے مگر ساری طاقت اور اختیار جناب زرداری صاحب نے اپنے پاس ہی رکھے تھے۔ انکے وفاقی دور اقتدار میں 18 ویں ترمیم کے باوجود طاقت کا سر چشمہ صدر ہاؤس تھا۔ اسی طرح آج بھی سندھ میں اصل کنڑول زرداری صاحب اور ان کی بہن کے پاس ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں۔
زرداری صاحب کے دور اقتدار میں سندھ میں پچھلے 12 سال کی کارگردگی کو دیکھیں تو بتانے کو کچھ نہیں ملتا۔ بھٹو جب پنجاب کا رخ کرتے تھے تو کسان کوسوں میل دور سے پیدل چل کر ان کی ایک جھلک دیکھنے آیا کرتے تھے جبکہ آج انتخابی بینرز پر زرداری کی تصویر پنجاب میں شکست کی علامت سمجھی جاتی ہے۔
بلاول بھٹو ظاہری خدوخال میں بھٹو اور بے نظیر کا حسین امتزاج ہیں تاہم ان ظاہری خدوخال کو بھٹو کے عملی اطوار سے مماثلت دینے کا عمل بڑا کٹھن ہے۔ اگرچہ بھٹو اور بلاول دونوں آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ، آزاد خیال اور ذہین دامن مگر خوش لباس شخصیات ہیں تاہم فی الحال دونوں شخصیات کا باہمی موازنہ صرف خیالی طور پر کیا جا سکتا ہے ورنہ ادب و احترام اور اخلاقیات کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔
ذوالفقار علی بھٹو عوام کی آنکھ کا تارا تھے۔ یہ مقام انہوں نے اپنی ذہانت اور عمل سے حاصل کیا تھا۔ اگرچہ بھٹو کی سیاسی وراثت کے لیے بلاول ایک فطری اور منطقی انتخاب ہیں تاہم انہیں اپنے اردگرد ہونے والی تبدیلیوں اور ان سے پیدا حالات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انہیں اپنے عمل سے بھٹو کی روح اور اس کی مماثلت کو ثابت کرنے کی ضرورت ہے۔ بلاول سے التجا ھے کہ خداراہ بھٹو کو ایک سیاسی موت سے ہمکنار ہونے سے بچاہیں۔ اگلے تین سال اپنی سیاسی بصیرت کو سندھ کی عوام کے لئے وقف کردیں۔ یہ سندھ کی دھرتی کا قرض بھی ہے جو انکے باپ نے چڑھایا ہے۔ بھٹو کا سیاسی وارث بننے کے لیے نا صرف ماضی کی کوتاہیوں اور غلطیوں کا ازالہ کرنا ہوگا بلکہ مستقبل کیلئے ایسا لائحہ عمل تیار کرنا ہو گا جو پنجاب میں کھوئی سیاسی ساکھ کو واپس لا سکے۔ بلاول کو ایک ایسی سیاسی تبدیلی لانی ہو گی جو نہ صرف ہونے والے نقصانات کے اثر کو کم کرے بلکہ مستقبل میں ایک سیاسی کامیابی کی ضمانت ہو۔
جب بنا نہیں تو اک اچھا کھلاڑی
کیوں مانگ رہا پھر قوم سے باری
قوم سے لے کر پہلے بھی اک باری
چٹ کر گیا زرداری ساری کی ساری
کیا آئی ہے اب پھر سے تیری باری
یا پھر تیری یہ باتیں ہیں ساری
جیو بلاول جۓ ھو زرداری