اسلام آباد میں جبری گمشدگیوں کے لئے قائم کمیشن کے مطابق سال 2019 میں اب تک جبری گمشدگیوں کے 800 کیسز رپورٹ ہوئے۔ کمیشن سے حاصل کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق سال 2018 میں جبری گمشدگیوں کے 1098 کیسز، سال 2017 میں 868، سال 2016 میں 728 جبکہ سال 2015 میں 649 کیسز رپورٹ ہوئے۔ کمیشن کے مطابق چار سالوں میں جبری گمشدگیوں کے کل تعداد 4143 ہوئی۔
کمیشن کے مطابق سال 2011 سے اب تک جبری گمشدگیوں کے کل 6506 کیسز رپورٹ ہوئے جس میں سے 2141 لوگ تاحال لاپتہ ہیں۔ سال 2019 میں بھی جبری گمشدگیوں میں کمی واقع نہیں ہوئی جبکہ اپریل اور جولائی میں جبری گمشدگیوں کے سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے جن کی تعداد 136 اور 121 ہے۔
کمیشن کے مطابق اب تک 6506 کیسز رپورٹ ہوئے جس میں 1977 لوگ واپس اپنے گھروں کو آئے جبکہ 810 فوج کے زیرنگرانی مختلف حراستی مراکز میں قید ہیں جبکہ 205 لوگوں کی لاشیں ملی ہیں جبکہ 2141 لوگ تاحال لاپتہ ہیں اور تاحال ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔
کمیشن کو دسمبر کے مہینے میں 32 جبری گمشدگیوں کے کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ 97 کیسز پر پیش رفت ہوئی جس میں سے 49 لوگ اپنے گھروں کو واپس لوٹے، 5 لوگ فوج کے زیر نگرانی حراستی مراکز میں قید ہیں جبکہ چار لوگوں کی نعشیں ملی۔ کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک کمیشن نے 3463 کیسز پر پیش رفت کی ہیں۔
کمیشن نے اس مہینے سندھ سے لاپتہ دس افراد کا معاملہ بھی اُٹھایا جس کے بعد سندھ پولیس کے ایک سربراہ کمیشن کے سامنے پیش ہوئے اور کمیشن کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ سندھ رینجرز نے ان تمام افراد کو اُٹھایا ہے اور ان سے تحقیقات جاری ہیں۔کمیشن نے لیاری سے تعلق رکھنے والے عبدالرزاق بلوچ کی گمشدگی کا معاملہ اُٹھایا جس کے بعد ان کی بہن کمیشن کے سامنے پیش ہوئیں اور کمیشن کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کے بھائی کی لاش ملی ہے جس کے بعد کمیشن نے عبدالرزاق بلوچ کے معاملے کو ختم کر دیا۔
واضح رہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے دو افراد کو حساس اداروں نے سول پاور ریگولیشنز کے تخت حراستی مراکز میں قید کیا ہے۔
کمیشن نے ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والے خان زمین اور لکی مروت سے تعلق رکھنے والے فاروق جہانزیب کے گمشدگی کا معاملہ بھی اُٹھایا، حساس اداروں نے کمیشن کے سامنے پیش ہوتے ہوئے موقف اپنایا کہ فاروق جہانزیب اور خان زمین اس وقت فوج کے زیر نگرانی حراستی مرکز لکی مروت میں سول پاور ریگولیشنز کے تخت قید ہیں اور ان کے خاندان کے افراد قانونی لائحہ عمل اپنا کر ان سے مل سکتے ہیں۔
کمیشن نے دیر سے تعلق رکھنے والے محمد فیروز، سوات سے تعلق رکھنے والے عنایت الرحمان اور بنوں سے تعلق رکھنے والے شہزاد خان کے جبری گمشدگیوں کے کیسز پر پیش رفت کی۔ حساس ادارے کے ایک اہلکار نے کمیشن کو بتایا کہ تینوں اس وقت فضا گٹ، فیتوم اور لکی مروت کے حراستی مراکز میں قید ہیں۔
کمیشن نے رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے عبدالخالق کے گمشدگی کا مسئلہ بھی اُٹھایا جس پر ایک پولیس اہلکار نے کمیشن کے سامنے پیش ہوتے ہوئے کہا کہ عبدالخالق ایک پولیس مقابلے میں مارے گئے۔
کمیشن نے درجنوں ایسے کیسز کو ختم کیا جن کے خاندانوں نے جبری گمشدگیوں کی رپورٹس درج کرائی تھی۔ جس پر کمیشن نے موقف اپنایا کہ درجنوں ایسے افراد ہیں جو اپنی مرضی سے ذاتی مسائل کی وجہ سے گھر چھوڑ کر گئے تھے جن پر ان کے خاندانوں نے گمشدگی کے رپورٹس درج کئے تھے، مگر وہ گمشدہ افراد کے کیٹیگری میں شمار نہیں ہوتے اس لیے کمیشن ان کے کیسز کو ختم کرتی ہیں۔ کمیشن نے اپنے اعداد و شمار میں واضح کیا ہے کہ گزشتہ اٹھ سالوں میں پنجاب سے 61، سندھ سے 52 خیبر پختون خوا سے 46 بلوچستان سے 28، اسلام آباد سے 07، سابقہ فاٹا سے 09 جبکہ ازاد جموں کشمیر سے 2 افراد کی نعشیں ملی ہیں جن کو تشدد کر کے قتل کیا گیا تھا۔
کمیشن نے جبری طور پر گمشدہ افراد جو فوج کے حراستی مراکز میں قید ہیں کہ اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب کے 78، سندھ کے 32، خیبر پختون خوا کے 615، اسلام آباد کے 17، سابقہ فاٹا کے 66، آزاد جموں اینڈ کشمیر کے 01، گلگت بلتستان کے 01، افراد اس وقت فوج کے زیر نگرانی مختلف حراستی مراکز میں قید ہیں۔
واضح رہے کہ پشاور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوج کے زیر نگرانی حفاظتی مراکز میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے حکم دیا تھا کہ حفاظتی مراکز میں قید تمام افراد کے کوائف عدالتوں میں جمع کرائیں جائیں۔