تجزیہ کار حسن نثار کو ایک مرتبہ پھر ان کے 'جمہوریت دشمن' خیالات کا اظہار ٹیلی وژن پر کرنے پر سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔ انہوں نے سماء ٹی وی پر پارس جہانزیب کے پروگرام میں کہا تھا کہ پاکستان کو 15 سال کے لئے فسطائیت کی ضرورت ہے اور جو جمہوریت کی بات کرتا ہے اسے گولی مار دینی چاہیے۔
یہ کلپ اتوار کے روز وائرل ہو گیا اور بہت سے سوشل میڈیا صارفین نے اس پر شدید ردِ عمل کا اظہار کیا کیونکہ سینیئر صحافی اس کلپ میں واضح طور پر ملک میں آمریت کا مطالبہ کر رہے تھے۔
سماء ٹی وی کے پروگرام میں حسن نثار کا کہنا تھا کہ "ہمیں 15 سال کے لئے بلا تعطل حکومت چاہیے۔ کوئی جمہوریت کا نام جو لے اسے فائرنگ سکواڈ کے سامنے لاؤ اور گولیوں اور بندوق کی گھسائی کا خرچ بھی اس کے گھر والوں سے وصول کرو۔ پرائمری تعلیم سے لے کر آبادی کنٹرول کرنے تک، جابر حکمران ۔۔۔ جابر 'جبیرا' سے ہے۔ یہ غلط ترجمہ کرتے ہیں 'مصلی'۔ جابر حکمران ہی تو حکمران ہوتا ہے۔"
پارس جہانزیب نے سوال کیا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ 15 سال آمریت ہونی چاہیے؟ حسن نثار کا کہنا تھا کہ اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ ورنہ تباہی اپنی آخری حدیں بھی پار کر جائے گی۔ "مزید پانچ سال، فیتی فیتی، یاد رکھنا"
پارس نے کہا کہ عمران خان خود بھی مغربہ جمہوریت کے بہت دلدادہ ہیں۔ کیا 15 سال کی آمریت ہی ہونی چاہیے یا عمران خان کو بھی ایک اور ٹرم دے کر دیکھا جا سکتا ہے؟ حسن نثار نے جواب دیا کہ "اس کو بھی دے کر دیکھ لینا چاہیے۔ یہ ہمارا اخلاقی فرض ہے"۔
سوشل میڈیا پر حسن نثار کو ان جملوں کے لئے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ صحافی حسن زیدی کا کہنا تھا کہ کسی تھوڑے سے بھی بہتر ملک میں حسن نثار کو اس قسم کی شرمندگی کا بار بار سامان کرنے پر میڈیا سے نکال دیا گیا ہوتا۔
روحیل ڈار نے بھی میڈیا ادارے جیو نیوز کو تنقید کا نشانہ بنایا جہاں سے صحافیوں طلعت حسین اور حامد میر کو تو نکالا جا چکا ہے لیکن حسن نثار کی دفعہ وہ کہتے ہیں کہ کچھ نہیں کیا جاتا۔
انسانی حقوق کی کارکن اور پروفیسر ندا کرمانی کا کہنا تھا کہ حسن نثار جمہوریت کے حامیوں کو فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کرنے اور گولیوں کے پیسے ان کے گھر والوں اور پیاروں سے لینے کی بات کرتے ہیں۔ لیکن یہ اس ملک میں جائز ہے۔ دوسری جانب علی وزیر کو ریاستی پالیسیوں پر تنقید کرنے کی پاداش میں ایک سال سے جیل میں رکھا ہوا ہے۔
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ حسن نثار نے اس قسم کا تنازع کھڑا کیا ہے۔ البتہ حیرت کی بات یہ ہے کہ موصوف دو سال قبل تحریکِ انصاف کو قوم سے معافی مانگ کر گھر جانے کا مشورہ بھی دے چکے ہیں۔ یہاں تک کہ ماضی میں پارٹی کی حمایت کرنے پر خود کو گالیاں بھی دے چکے ہیں۔ لیکن اب کہہ رہے ہیں کہ اسے پانچ سال اور دے کر دیکھ لو۔