خر کمر واقعہ، خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے نو رکنی جرگہ قائم کر دیا

صوبہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان کے مشیر برائے قبائلی اضلاع اجمل وزیر نے خرکمر میں پیش آنے والے واقعہ پر نو رُکنی قبائلی جرگہ قائم کر دیا ہے۔

اجمل وزیر نے میرانشاہ کے دورہ کے دوران قبائلی عمائدین سے ملاقات کی اور فوجی اہل کاروں اور مظاہرین کے درمیان ہونے والے تصادم کے حوالے سے مثبت پیش رفت کے لیے جرگہ تشکیل دینے پر اتفاق کیا۔

یاد رہے کہ سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان ہونے والے اس تصادم میں تین افراد ہلاک اور 15 زخمی ہو گئے تھے۔

اجمل وزیر نے کہا، جرگے کا اجلاس پشاور میں ہوگا۔ انہوں نے یہ یقین دہانی بھی کروائی کہ شمالی وزیرستان میں ہر صورت امن و امان برقرار رکھا جائے گا۔

جرگے میں وزیرستان کے چیف ملک نصراللہ خان، داوڑ قبیلے کے سربراہ ملک خان زیب خان، ملک شاہ نواز خان مداخیل، ملک خان مرجان داردونی، ملک حبیب اللہ درپہ خیل، ملک جان فراز خان داردونی، ملک امیر قدیر خان درپہ خیل، ملک غلام خان مدرخیل اور ملک پیر عقل زمان تاپی داوڑ شامل ہیں۔

جرگے کے ارکان نے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کی جانب سے اعلان کردہ مالی امداد کے تحت چند متاثرین میں امدادی چیک بھی تقسیم کیے۔

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے کہا تھا، واقعہ میں جاں بحق ہونے والے افراد کے اہل خانہ کو 25 لاکھ روپے اور زخمیوں کو 10 لاکھ روپے معاوضہ ادا کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ 26 مئی کو آئی ایس پی آر نے یہ بیان جاری کیا تھا کہ قومی اسمبلی کے اراکین محسن جاوید داوڑ اور علی وزیر کی قیادت میں ایک گروہ نے شمالی وزیرستان کی بویا سکیورٹی چیک پوسٹ پر حملہ کیا جس میں پانچ فوجی اہلکار زخمی ہو گئے تھے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق، خرکمر چیک پوسٹ پر حملے کا مقصد دراصل ایک روز قبل گرفتار کیے گئے مبینہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو چھڑوانے کے لیے دبائو ڈالنا تھا۔



بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ علی وزیر اور محسن داوڑ کی قیادت میں گروہ نے مبینہ طور پر چیک پوسٹ میں موجود اہل کاروں پر براہ راست فائرنگ کی جس پر اہل کاروں نے اپنے تحفظ کے لیے جوابی کارروائی کی۔

پاک فوج کے مطابق، چیک پوسٹ پر براہ راست فائرنگ کی زد میں آکر پانچ اہل کار زخمی ہو گئے جب کہ کارروائی میں تین افراد مارے گئے اور 10 زخمی ہوئے جب کہ ایک روز بعد پاک فوج کا ایک جوان زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان کی بازی ہار گیا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق، علی وزیر سمیت آٹھ افراد کو گرفتار کر لیا گیا جب کہ محسن داوڑ جائے وقوعہ سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

واضح رہے کہ چیک پوسٹ کے قریب بویا کے علاقے میں نالے سے پانچ افراد کی گولیاں لگی لاشیں بھی برآمد ہوئیں۔

چند روز بعد محسن داوڑ کو بھی شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ سے حراست میں لے لیا گیا تھا جنہیں بنوں کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے آٹھ روزہ ریمانڈ پر محکمہ انسداد دہشت گردی کے حوالے کر دیا ہے۔