بیرون ملک مقیم احمدی افسر کو دھمکیاں دی جانے لگیں، نوکری سے برطرف کرنے کا مطالبہ

بیرون ملک مقیم احمدی افسر کو دھمکیاں دی جانے لگیں، نوکری سے برطرف کرنے کا مطالبہ
پاکستان میں احمدی عقیدے کے سرکاری ملازمین کے اردگرد کا ماحول ہمیشہ سے خوفناک ہے۔ حال ہی میں احمدیہ عقیدے کے پاکستانی سرکاری ملازمین کے قبل از وقت تبادلوں میں اضافہ ہوا ہے اور بعض صورتوں میں انہیں اپنا سرکاری چارج لینے سے روک دیا گیا ہے۔

یہ مذہبی انتہا پسند گروپوں کی جانب سے جاری نفرت انگیز مہمات کا براہ راست نتیجہ ہے۔ احمدی سرکاری ملازمین کے خلاف یہ کارروائیاں پاکستان کے آرٹیکل 27 کی واضح خلاف ورزی ہیں۔

آئین کے آرٹیکل 27 (1) میں واضح طور پر درج ہے کہ " پاکستان کی خدمت کے لئے اہل کسی شہری کے ساتھ صرف نسل، مذہب، ذات، جنس، رہائش یا جائے پیدائش کی بنیاد پر ایسی کسی بھی تقرری کے سلسلے میں امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا"۔

لیکن اس کے برعکس حال ہی میں، احمدیہ عقیدے کے چار سرکاری ملازمین کو ان کے عہدوں سے قبل از وقت ہٹا یا گیا تھا۔ اب بیرون ملک ایک افسر کو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نامی تنظیم سے اپنے عقیدے کی وجہ سے غیر ضروری دھمکیوں کا سامنا ہے۔

یہ افسر ایک بہت ہی باوقار اور قابل احترام سول سرونٹ ہیں جن کا زبردست ٹریک ریکارڈ ہے۔ مذکورہ تنظیم ان کیخلاف بے بنیاد الزامات لگا کر حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اس قسم کی نفرت انگیزی کا نتیجہ احمدیہ کمیونٹی کے ارکان کے خلاف تشدد کی صورت میں نکلتا ہے جو پچھلے واقعات سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ پاکستان میں احمدیوں کے بنیادی حقوق کی اس طرح پامالی دیکھنا افسوسناک ہے۔



عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نامی تنظیم کی جانب سے وزیراعظم شہباز شریف کو اس سلسلے میں ایک خط میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ حکومت نے سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے شخص کو پاکستان کا سفیر تعینات کیا تھا۔ یہ سفیر متعصب قادیانی ہے۔ وہ قادیانیت کی تبلیغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے اور بہت سے مسلمانوں کو اپنا عقیدہ تبدیل کروانے بنانے میں کامیاب ہوا ہے جن میں سے دو کی تصدیق ہو چکی ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی سفیر اسلامی ریاست کا ایک عہدیدار ہے جو اپنا رزق حکومت کے خزانے سے لیتا ہے اور پھر بھی اپنے عقیدے کا پرچار کرتا رہتا ہے۔ یہ صورتحال موجودہ حکومت پر سوالیہ نشان ہے۔ اس نے آذربائیجان میں پاکستانی سفارتخانے کو قادیانیت کی تبلیغ کے اڈے میں تبدیل کر دیا ہے۔

وزیراعظم کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ سفیر پاکستانی طلبہ کو کھانے پر مدعو کرتا ہے اور اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے انہیں قادیانی بناتا ہے۔ ایک لینگویج یونیورسٹی میں اس نے ایک قادیانی رشتہ دار کو اردو پڑھانے کے لیے رکھا ہے۔ ہر روز قادیانی کتب، رسائل اور مختلف لٹریچر کی تقسیم میں مصروف رہتے ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس کے خلاف فوری ایکشن لیں اور پاکستان کا نام قادیانیت کی خاطر پروپیگنڈے کے آلے کے طور پر استعمال ہونے سے روکیں۔