شریفوں کی خاندانی سیاست اور عمران خان کی بادشاہت میں خاص فرق نہیں

شریفوں کی خاندانی سیاست اور عمران خان کی بادشاہت میں خاص فرق نہیں
ان دنوں بیش تر مبصرین کی جانب سے سیاسی خاندانوں کی خامیوں کے بارے میں خطرناک حد تک بیان بازی کرنا فیشن کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ مبصرین جن خاندانوں کو خاص طور پر ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، وہ شریف خاندان اور بھٹو خاندان ہیں۔

تاہم یہ ستم ظریفی ہے کہ جہاں ایک جانب وہ خاندانوں کی سیاست کی مخالفت کرتے ہیں، وہیں وہ ' بادشاہت' کی حمایت کرنے میں خوشی محسوس کر رہے ہوتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ بادشاہتیں ہی ہیں جن کی کوکھ سے سیاسی خاندان جنم لیتے ہیں۔

اگر ایک جانب بعض سیاسی جماعتوں کو سیاسی خاندان کہا جاتا ہے تو مستقل مزاجی کا تقاضا یہ ہے کہ ایسی جماعتیں جہاں سپریم لیڈر کے علاوہ کسی دوسرے رہنما کو کوئی اہمیت نہ دی جاتی ہو اور جہاں پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے یونانی دیومالائی کردار Icarus کی مانند سورج کے بہت قریب جا کر دیکھ لیا ہو کہ ان کے پر جل سکتے ہیں، ایسی جماعتوں کو بادشاہتیں پکارا جانا چاہئیے۔

صرف ایک ہی خاندان حکومت کرنے کا اہل ہے اور صرف ایک آدمی ہمیشہ کے لیے حکومت کرنے کا مستحق ہے، ان دو نکات سے متعلق بحث کرتے ہوئے ذہن میں رہنا چاہئیے کہ دونوں باتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ کوئی ایک ہی خاندان یا کوئی ایک ہی ایسا فرد جسے پارٹی پر مکمل گرفت حاصل ہو، ان کے بیچ میں بھی کوئی فرق نہیں ہے۔ بدقسمتی سے اسی آمرانہ گرفت کے باعث تباہ کن فیصلے سامنے آتے ہیں، خاص طور پر اہم ترین عہدوں پر غیر موزوں لوگوں کی تقرری جیسے فیصلے۔

سیاسی خاندان محض پاکستان ہی کا خاصا نہیں ہیں۔ بھارت میں نہرو/گاندھی خاندان، بنگلہ دیش میں مجیب خاندان، سری لنکا میں بندرانائیکے اور راجاپکشے خاندان، فلپائن میں ایکینو اور مارکوس خاندان ان سیاسی خاندانوں کی مثالیں ہیں۔

لیکن پاکستان میں پارٹی قائدین کی طاقت بحیثیت مجموعی بہت منفرد ہے اور جماعت اسلامی کو چھوڑ کے باقی سبھی سیاسی جماعتوں کو خاندانی سیاسی جماعتیں بنا دیتی ہے، چاہے انہیں کوئی ایک مقتدر خاندان چلا رہا ہو یا پھر کوئی اکیلا سپریم لیڈر۔ سیاسی رہنماؤں کو آمروں کا درجہ دینے میں ہمارا آئین، ادارے اور سیاست سبھی کارفرما نظر آتے ہیں۔

پاکستان کے قیام کے پہلے 11 سالوں کے دوران سمر انٹرنز سے بھی زیادہ تعداد میں وزرائے اعظم تبدیل کرنے کے بعد ہمیں یکے بعد دیگرے تین مارشل لاؤں کا سامنا کرنا پڑا جو 1988 تک لگ بھگ 30 سال تک جاری رہے۔ اس عرصے میں ذوالفقار علی بھٹو کی آئینی حکمرانی کے وہ چار سال شامل نہیں ہیں حالانکہ ان کے آخر میں بھی ایمرجنسی لگائی گئی تھی اور بنیادی حقوق کو معطل کر دیا گیا تھا۔

اگلے 11 سالوں میں دو منتخب وزرائے اعظم چار مرتبہ ایک دوسرے کی جگہ لیتے رہے اور چار ہی نگران وزیر اعظم آئے۔ ہر مرتبہ جب 'پنڈی والوں' کی مدد سے ایک منتخب وزیراعظم کو ہٹایا جاتا تو ایک نگران وزیراعظم اس کی جگہ لے لیتا۔ یہ کھیل تب ختم ہوا جب جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔

ان سالوں کے دوران عدم استحکام کی ایک وجہ آئین کے آرٹیکل کی شق 58 ٹو بی تھی جس کے تحت صدر پاکستان منتخب وزرائے اعظم کو (اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اشارہ پا کر) ہٹانے کا اختیار رکھتے تھے۔ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے قانون سازوں کی وفاداریوں کو تبدیل کروا لینا عدم استحکام کی دوسری وجہ تھی۔ ان عوامل کا مقابلہ کرنے کے لیے قومی اسمبلی نے 1997 میں 14 ویں آئینی ترمیم منظور کی جس نے 58 ٹو بی کا خاتمہ کر دیا اور اراکین پارلیمنٹ سے اپنی مرضی کے مطابق ووٹ دینے کے اختیارات بھی چھین لیے۔ اب اپنے ضمیر یا خوف یا پیسے کے لالچ کے بجائے قانون سازوں پر لازم تھا کہ وہ اپنی پارٹی کے سربراہ کی مرضی کے مطابق ووٹ دیں۔

مارشل لاء کے خاتمے کے بعد 18 ویں ترمیم کے ذریعے سے ایک مرتبہ پھر 58 ٹو بی کو ختم کر دیا گیا جسے جنرل پرویز مشرف نے دوبارہ آئین کا حصہ بنا لیا تھا اور ان مسائل کو بھی بیان کیا جہاں قانون سازوں کے لئے ضروری تھا کہ وہ اپنے قائدین کی خواہشات کے مطابق ووٹ دیں، چاہے وہ آزاد حیثیت ہی میں کیوں نہ منتخب ہوئے ہوں۔ اس شرط کی خلاف ورزی ایک ہی صورت میں کی جا سکتی تھی اگر اراکین پارلیمنٹ اپنی نشست سے محروم ہونے کے لئے تیار ہوں۔

اسی ضمن میں حال ہی میں سپریم کورٹ نے ایک ایسا قدم اٹھایا ہے جس کا شاید آئین میں تصور بھی نہیں کیا گیا اور حکم دیا ہے کہ اپنے پارلیمانی لیڈر کے حکم کے خلاف ڈالے گئے رکن پارلیمنٹ کے ووٹ کو شمار بھی نہیں کیا جائے گا۔

لہٰذا ایک ایسا سفر جس کا آغاز بظاہر اداروں کی ایک دوسرے کے دائرہ کار میں مداخلت کو روکنے کی کوشش سے ہوا تھا، درحقیقت پارٹی لیڈروں کو اپنے اراکین پارلیمنٹ کی بات سننے کے 'جھنجھٹ' سے چھٹکارہ دلانے کی کوشش بھی ثابت ہوا اور اس نے بالآخر پارلیمنٹ کو کم و بیش بے وقعت بنا کر رکھ دیا۔ وزیر اعظم کون ہونا چاہئیے، بجٹ کیسا ہونا چاہئیے اور کون سی آئینی ترامیم منظور ہونی چاہئیں؛ اس بارے میں اب کسی رکن پارلیمنٹ کے پاس انفرادی حیثیت میں کچھ بھی کہنے کا اختیار نہیں بچا۔ یہ فیصلے سیاسی جماعتوں کے چند رہنماؤں کے ہاتھ میں دے دیے گئے ہیں۔

جب ہمارا آئین پارٹی سربراہ کو اتنے اختیارات دیتا ہے تو ایسے میں قانون سازوں کے پاس کیا اختیار رہ جاتا ہے؟ ایسی صورت میں خاندانوں کی سیاست یا بادشاہت قائم نہ ہو تو اور کیا ہو؟

پارٹی سربراہان شاید یہ کہیں کہ یہ اقدام قانون سازوں پر اسٹیبلشمنٹ کے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے اٹھایا گیا تھا۔ لیکن ہمارا زندگی کا تجربہ بتاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جب مداخلت کرنا چاہتی ہے تو وہ کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لیتی ہے۔ لہٰذا ان ترامیم نے اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کی صلاحیت کو کم نہیں کیا بلکہ پارٹی سربراہان کو انفرادی قانون سازوں پر مکمل فوقیت دے دی ہے۔

سیاسی جماعتوں کو زیادہ جمہوری بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ ایسے قوانین سے چھٹکارا حاصل کیا جائے جو اراکین پارلیمنٹ کے ووٹ ڈالنے کے حق کو محدود کرتے ہیں۔ مگر اس میں بھی ایک تنبیہ ہے کہ اراکین پارلیمنٹ تمام ووٹ کھلے عام ڈالیں تاکہ عوام کو معلوم ہو سکے کہ ان کے نمائندوں نے پارلیمنٹ میں کس کو ووٹ دیا ہے۔ ایسے اراکین پارلیمنٹ جو اپنے حلقے کے مفاد میں ووٹ نہیں ڈالیں گے، عوام انہیں اگلے انتخابات میں ووٹ نہ دے کر شکست سے دوچار کر دیں گے۔

بلاشبہ پاکستان میں جس انداز سے سیاست کی جاتی ہے اس سے بھی لیڈروں کی طاقت کو تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ امریکہ میں اگر آپ اسقاط حمل کے معاملے پر کسی سیاست دان کے خیالات سے واقف ہیں تو آپ امیگریشن سے متعلق بھی اس کی رائے کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ امریکی سیاست نظریاتی حساب سے دائیں اور بائیں دھڑے پر کی جاتی ہے۔ اگر سیاست دان کسی ایک معاملے پر بائیں بازو والے نظریات رکھتے ہیں تو غالب امکان ہے کہ باقی تمام معاملات سے متعلق بھی وہ بائیں بازو والے نظریات ہی کے حامل ہوں گے۔

پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں سیاسی جماعتیں نظریے پر نہیں بلکہ اقدار اور مفادات کی بنیاد پر چلتی ہیں اور یہ کہنا نہایت ضروری ہے کہ جماعتیں اپنے سربراہ کی نسلی پہچان پر انحصار کرتی ہیں۔ اسی لیے سیاسی خاندان کی اہمیت میں اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ ووٹروں کے شعور میں یہ یکساں اقدار اور مفادات کی عکاسی کرتا ہے۔ مزید براں اسٹیبلشمنٹ کی طاقت نے پارٹی لیڈروں کو مزید غیر معمولی حیثیت عطا کر دی ہے، غالباً پاگل پن کی حد تک اور یہی وجہ ہے کہ وہ خاندان کے باہر سے کسی رہنما کو اوپر نہیں آنے دیتے۔

ایک مثال خیبر پختونخوا سے ملتی ہے جہاں خان عبدالغفار خان کی خدائی خدمت گار تحریک کا ووٹ بینک ان کے بیٹے ولی خان کو وراثت میں ملا تھا جو آگے چل کر نیشنل عوامی پارٹی کے اپنے دھڑے کے سربراہ بن گئے (اے این پی کے دوسرے دھڑے کی سربراہی مولانا بھاشانی کے حصے میں آئی)۔ جب ولی خان کو جیل میں ڈال دیا گیا تو بیگم نسیم ولی خان نے پارٹی کو سنبھالا۔ بالآخر ان کے بیٹے اسفند یار ولی خان نے پارٹی کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی۔ اگرچہ اے این پی ایسے لیڈروں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے اس ملک کے لیے اپنے خاندان کے افراد کی جانیں قربان کی ہیں، مگر اے این پی کا اگلا لیڈر اسفند یار کا بیٹا ایمل ولی خان ہی ہو گا۔

اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ووٹ بینک لیڈر کی وجہ سے بنتا ہے، حسد کے ساتھ اس کی حفاظت کی جاتی ہے اور خاندان کی اگلی نسل کو منتقل کیا جاتا ہے۔ پارٹیاں محض وہ سیڑھیاں ہیں جنہیں سیاسی رہنما اپنی مقبولیت کو ادارہ جاتی بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

اگرچہ اس کا امکان کم ہے مگر دنیا کے اس حصے میں جہاں ہم رہتے ہیں یہاں بادشاہت اور خاندانی سیاست سے آزاد کامیاب سیاسی جماعت بنانا ممکن ہے۔ اس کی ایک مثال بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہے، پہلے اٹل بہاری واجپائی جس کے سربراہ تھے اور اب نریندر مودی ہیں۔ لیکن ہندوتوا کی سیاست کے ساتھ بی جے پی کی شناخت نے اس کے لیے ممکن بنا دیا ہے کہ کسی حکمران سپریم لیڈر یا خاندان پر انحصار کیے بغیر کامیابی حاصل کر لے۔ لہٰذا ایک غیر خاندانی سیاسی جماعت کی کامیابی کے لئے اس کے پاس کسی نظریاتی بنیاد کا ہونا نہایت ضروری ہے۔

پاکستان میں ایسی سیاسی جماعتیں سامنے آئیں گی یا نہیں، یہ آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے۔




سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا یہ مضمون Dawn میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کرکے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔

مفتاح اسماعیل وفاقی وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔