آجکل ہم سب ایک وبا کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہر کوئی ایک نادیدہ خوف میں مبتلا ہے اور ایسے لگتا ہے کہ شائد کرونا یعنی موت کا فرشتہ ہر رکاوٹ توڑ کر کسی نہ کسی طریقہ سے آپ تک پہنچ جائے گا، اور پھر آپ قسمت کے حوالے ہیں۔ کیونکہ ابھی تک تو اس وبا کا کسی کے پاس علاج نہیں ہے۔ ہماری ذہنی حالت یہ ہے جو کسی نے کہا تھا کہ 'وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ'۔
اس جبری نظر بندی کے نفسیاتی اثرات دن بدن گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ کرونا سے تو موت واقع ہو جائے گی اور معاملہ ختم ہو جائے مگر ایک دفعہ آپ نفسیاتی پیچیدہ بیماری میں مبتلا ہو گئے تو پھر ہر شہر میں قرنطینہ سنڑ کے ساتھ ساتھ نفسیاتی سنڑ بھی کھولنے پڑیں گے۔
اب ذرا اصل نکتے کی طرف آتے ہیں-پاکستان قومیتوں کے حقوق کی جدوجہد کی نتیجے میں معرض وجود میں آیا تھا۔ مگر بدقسمتی سے ہم نے دیکھا کہ پاکستان بننے کے فورا بعد پاکستان کی اکائیوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا۔ پہلے صوبہ پختون خوا میں ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت کو ختم کیا گیا۔ پھر جب کہا گیا کہ بلوچستان کو صوبہ بنایا جائے تو کہا کہ اس کو گورنر جنرل کے تابع رہنے دیا جائے۔ پھر مشرقی پاکستان میں زبان کا مسئلہ چھیڑ دیا گیا۔ بنگالی کو اس کا جائز مقام نہ دیا گیا۔ پھر بنگالیوں کی اکثریت کو ختم کرنے کے لئے مغربی پاکستان میں ون یونٹ قائم کرکے پیریٹی یعنی دونوں صوبوں میں برابری نافذ کر دی گئی۔
گو 1956 کا آئین وفاقی تھا مگر جنرل ایوب نے ملک میں مارشل لا لگا کر اسی صدارتی طرز حکومت میں بدل دیا- پھر پاکستان کی اکائیوں کے حقوق کی جنگ یا جدوجہد تیز ہو گئی۔
کیونکہ یہاں وفاقی اکائیں کے حقوق پر کوئی مقالہ لکھنا مقصود نہیں صرف اتنا عرض ہے کہ وفاقی اکائیوں کو حقوق نہ دینے کی وجہ سے پاکستان ٹوٹ گیا- موجودہ یا نئے پاکستان میں بھی بھی بد قسمتی سے صوبوں کیے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا۔ فوجی حکومت تو ہوتی ہی صدارتی ہے اس میں صوبوں کو حقوق دینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں یہاں زیادہ ترصدارتی طرز حکومت رہا ہے اور وفاقی اکائیوں کے حقوق کبھی بھی مقتدر حلقوں کو ہضم نہیں ہوئے۔ پیپلز پارٹی کی پچھلی سرکار کے بارے میں آپ جو مرضی کہیں مگر اس نے ایک بہت ہی بنیادی اورعمدہ کام کیا وہ تھا اٹھارویں آئینی ترمیم۔ یہ بھی شائد خصوصی حالات تھے کہ جن میں یہ منظور ہو گئی۔ مگر اس دن سے اس ترمیم کے خلاف ہر طرح کا پراپیگنڈہ مختلف ذرائع سے کیا جاتا رہا ہے۔ پہلے تعلیم کے نام پر اور اب کرونا سے نپٹنے کے نام پر ایک زبردست محاذ کھول دیا گیا ہے- حد تو یہ ہے کہ ہمارے ایک سینیر ایڈیٹر نے اسے غیر اسلامی بھی قرار دے دیا ہے- ایک نصاب تعلیم کے بارے میں صرف اتنا عرض ہے کہ اگر ہمت ہے تو وقافی وزیر تعلیم صرف اسلام آباد کی یونیورسٹیوں کا ایک نصاب بنا کر دکھا دیں- جہاں تک کرونا سے نپٹنے کا تعلق ہے تو فوج سویلین کی مدد کی لئے ہر صوبے میں موجود ہے اور اس پر کسی نے اعتراض نہیں کیا- ہمارے خیال میں اٹھارویں آئینی ترمیم کا کسی بھی مقدس نام پر خاتمہ کسی بھی صورت میں پاکستان کی لئے مفید نہیں ہوگا بلکہ اس سے پرانے زخم تازہ ہو جائیں گے اور پاکستان کی ریاست کو نا قابل تلافی تقصان ہو گا-