عمران کو ہٹا کر بلاول کو چنا جا سکتا ہے: بھارتی جریدے کا دعویٰ

عمران کو ہٹا کر بلاول کو چنا جا سکتا ہے: بھارتی جریدے کا دعویٰ

جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی طرف سے جمعے کو وزیر اعظم عمران خان کو مستعفی ہونے سے متلعق دی گئی دو دن کی ڈیڈ لائن آج اتوار کو ختم ہور ہی ہے۔ اس وقت اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمان کے گھر پر جے یو آئی کے رہنماؤں کا ایک اہم اجلاس جاری ہے جس میں آئندہ کے لائحہ عمل پر غور کیا جا رہا ہے۔


اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومت نے اسلام آباد میں سکیورٹی کے انتظامات بڑھا دیے ہیں اور پولیس کی بھاری نفری ریڈ زون میں تعینات کر دی گئ ہے۔ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ آزادی مارچ کے شرکا کو اسلام آباد کے سیکٹر جی نائن سے ڈی چوک یا ریڈ زون کی جانب جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

’اسٹیبلشمنٹ عمران کو ہٹا کر بلاول کو چن سکتی ہے‘

اسلام آباد میں صورتحال گھمبیر ہوتی جا رہی ہے۔ بھارتی جریدے The Sunday Guardian نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے اوپر سے ملکی اور بین الااقوامی اسٹیبلشمنٹ کا بھروسہ اٹھ چکا ہے، کیونکہ عمران خان امریکہ اور چین دونوں کو خوش کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ مولانا فضل الرحمان کے دھرنے نے ان کی حکومت کو مزید کمزور کر دیا ہے۔

جریدے کے مطابق اس احتجاج کو اسٹیبلشمنٹ کے کسی دھڑے کی حمایت بھی حاصل ہو سکتی ہے جیسے عمران خان کے دھرنے کو اس وقت تھی، جبکہ ملک کی بڑی اپوزیشن جماعتیں بھی حکومت مخالف مارچ میں بھرپور شرکت کر رہی ہیں۔

وزیر اعظم کے استعفے کی ڈیڈلائن ختم، اب کیا ہوگا؟

مولانا فضل الرحمان کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے اتوار تک مستعفی ہونے کی مہلت آج ختم ہو جائے گی لیکن اب سوال یہ ہے کہ مہلت ختم ہونے کے بعد اب کیا ہو گا؟

کیا اب بھی مذاکرات سے معاملات کا سیاسی حل نکالا جا سکے گا؟ اس پر بی بی سی کی نامہ نگار ہدیٰ اکرام نے اس دھرنے پر نظر رکھنے والی دو سینیئر صحافیوں سے گفتگو کی ہے۔

سینیئر صحافی عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ فی الوقت سیاسی حل نکالنے کی جانب کسی کا رجحان نظر نہیں آ رہا، اس وقت اعصابی جنگ لڑی جا رہی ہے کہ پہلے پیچھے کون ہٹے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ مولانا تو یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ پحھے نہیں ہٹیں گے کیونکہ وہ کئی ماہ کی تیاری کے بعد آئے ہیں، اور وہ کچھ کھونے نہیں بلکہ پانے کے لئے آئے ہیں۔ ایسی صورت میں ذمہ داری ریاست اور حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس معاملے کو کیسے سنبھالتی ہے'۔

صحافی منیزے جہانگیر نے کہا کہ اس وقت ایسا محسوں ہو رہا ہے جیسے آزادی مارچ کے لئے مولانا فضل الرحمان نے دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی پوری طرح اعتماد میں نہیں لیا تھا۔ ’شاید یہی وجہ ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتیں اس طرح مارچ میں شریک نہیں ہو سکیں جیسے ہونا چاہتی تھیں۔‘

عاصہ شیرازی کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے اپنی سیاست کا جوا کھیلا ہے۔ ’پہلے یہ تاثر تھا کہ شاید وہ اور وزیر اعظم عمران خان انفرادی طور پر آمنے سامنے ہیں لیکن اب ایسا نہیں لگ رہا ہے‘۔