کاش کہ ہم بھی پی ایچ ڈی کر کے واپس نہ آتے

کاش کہ ہم بھی پی ایچ ڈی کر کے واپس نہ آتے
ایک رپورٹ نظر سے گزری جس میں بتایا گیا ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے خرچے پر 132 میں سے 80 سکالر واپس نہیں آئے ۔اور یہ صرف آج کی بات نہیں ہے بلکہ یہ جب سے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا قیام عمل میں آیا ہے تب سے پاکستانی طلبہ میں سے اکثر وہاں غائب ہوجاتے ہیں۔ پھر وہ ایچ ای سی کے بانڈ کی بھی پرواہ نہیں کرتے ۔

جو وہ ایچ ای سی کے ساتھ سائن کرتے ہیں جس میں وہ لکھتے ہیں کہ سکالر شپ پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے کر آنے والا ڈاکٹر ملک میں کسی بھی یونیورسٹی میں جہاں مذکورہ مضمون کی دستیابی ہوگی وہ وہاں پر پڑھائے گا۔ اگر وہ اس بانڈ کو توڑنا چاہے گا تو جتنا خرچہ حکومت نے سکالر پر کیا ہوتا ہے وہ سب انہیں حکومتی خزانے میں جمع کرانا پڑے گا۔

جس میں اکثر ڈاکٹر بانڈ توڑ دیتے ہیں اور کچھ وطن عزیز سے محبت کے چکر میں واپس آجاتے ہیں ۔اور یہاں یونیورسٹیوں کے اندرونی اور بیرونی سیاستوں اور سازشوں کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ اور وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ملک کےمعماروں کا مستقبل اُن سے وابستہ ہے ۔

ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی عجیب ترین پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں یونیورسٹیوں کا جال تو موجود ہے مگر قوانین کی بہت جلدی تبدیلی سب چیزوں کا ستیاناس کردیتی ہے ۔ باقی مسائل پر بات پھر کبھی ہوجائے گی آج سکالرشپ پر بات کرنی مقصود ہے ۔ جس میں بھی ہائیر ایجوکیشن کی عجیب سی پالیسیاں میدان میں ہیں ۔ ملک کے اندر سکالرشپ حاصل کرنے والے طلبہ کو ایک لمبے پراسس کے بعد سکالر شپ مل جاتی ہے مگر انہیں خود سے کسی سپروائزر کو ڈھونڈنا پڑتا ہے جو کہ ایک مشکل ترین امر ہے ۔طالب علم اس میں تمام صوبوں میں سرگرداں پھرتا ہے بہت سی یونیورسٹیوں میں چکر کے بعد بہت منتوں کے بعد سپروائزر مل جاتا ہے ۔ دوسری صورت میں اپنے شہر کی یونیورسٹی میں اسے سکالرشپ مل جاتی ہے ۔مگر چونکہ ہر ڈاکٹر کے ساتھ دس سے زیادہ طلبہ پی ایچ ڈی یا ایم فل نہیں کرسکتے اس لئے وہ پریشانی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ طالب علم اپنی کوششوں سے دوسرے ممالک میں سکالرشپ حاصل کر لیتے ہیں پھر وہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے رابطہ کر لیتے ہیں۔

اور پھر ضروری دستاویزات کے بعد وہ بھی ایچ ای سی کے ساتھ رجسٹرڈ ہوجاتے ہیں ۔اور جب وہ ڈگری حاصل کرکے آجاتے ہیں تو ایچ ای سی دوسال تک انہیں کسی بھی یونیورسٹی میں کھپانے کی ذمہ دار ہوتی ہے مگر یہاں بھی ڈاکٹریٹ جو کہ اعلی ڈگری تصور کی جاتی ہے وہ حاصل کرنے والا یونیورسٹیوں کی خاک چھانتا ہے ۔ وائس چانسلرز کی منتیں کرتا ہے کہ وہ انہیں یونیورسٹی میں جگہ دے ۔اس کو آئی پی ایف پی کہا جاتا ہے یہ دوسالہ سروس ہائیر ایجوکیشن کمیشن انہیں مہیا کرتی ہے ۔جس کی تنخواہ ایچ ای سی ادا کرتی ہے اور یہ تنخواہ پانچ چھ مہنیوں کے بعد اور درجنوں ای میلز کے بعد ادا کی جاتی ہے۔ جب دوسال پورے ہوجاتے ہیں تو وہ پھر وہاں سے اپنا بوریا بسترا گول کر لیتا ہے۔

حالانکہ ایچ ای سی کی ایک شق میں یہ بھی موجود ہے کہ وہ اس ڈاکٹر کے لئے پوسٹ اناؤنس کرے گا جہاں اور بھی لوگ اپلائی کریں گے مگر فوقیت آئی پی ایف پی والے کو دی جائے گی ۔مگر ایسا کبھی ہوتا نہیں ہے۔ پاکستان میں آج کل چین، ملائیشیا اور کچھ اور ممالک سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے ڈاکٹر مشکلات کا شکار ہیں اور انہیں کوئی بھی یونیورسٹی آئی پی ایف پی پر بھی لینے کو تیار نہیں ہے ۔جس سے دلبرداشتہ ہوکر وہ ملک سے واپسی کی راہ لیتے ہیں اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لئے باہر ممالک اپلائی کرکے کچھ سالوں کے لئے کچھ نہ کچھ اس تعلیم کی مد میں کما لیتے ہیں ۔

جبکہ بہت سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری والے کبھی کسی یونیورسٹی تو کبھی کسی یونیورسٹی کی راہ لیتے ہیں جہاں سے انہیں منہ کی کھانی پڑتی ہے ۔میں خود بہت سے پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ ڈگری والوں سے ملا ہوں جو بے روزگاری کے ہاتھوں پریشان ہیں کہ اس سے کوئی آگے تعلیم ہی نہیں ہے تو کیا کیا جائے۔ اس لئے جب یہ رپورٹ پڑھی کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے خرچے پر جانے والے سکالر واپس نہیں آرہے تو مجھے یہاں ملنے والے پی ایچ ڈی ڈاکٹر کی کہانیاں سامنے آجاتی ہیں کہ یہ سب جو وطن عزیز واپس آئے ہیں یہ رپورٹ پڑھ کر سوچ رہے ہونگے کاش ہم بھی ان کی طرح واپس نہ آتے تو یوں آج دربدر کی ٹھوکریں اعلٰی ڈگری کے بعد نہ کھاتے۔

مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں شعبہ صحافت کے سربراہ ہیں۔