خان صاحب؟ معافی ملے گی معافی؟

خان صاحب؟ معافی ملے گی معافی؟
بقول وزیر موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل کہ وزیراعظم عمران خان ایک کرشماتی شخصیت ہیں، وہ جب کسی محفل میں مسکراتے ہوئے ویسٹ کوٹ پہن کر انٹری مارتے ہیں تو لوگ دنگ رہ جاتے ہیں، سانسیں رک جاتی ہیں، بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مجمع پر سکتہ طاری ہو جاتا ہے مجمع ان کے سحر میں مبتلا ہو کر یہ کہتا ہے کہ کیا وزیراعظم پایا ہے۔

عمران خان کی کرشماتی شخصیت کو چلو ایک لمحے کے لیے ہم بھی مان لیتے ہیں وہ اقوام متحدہ میں کھڑے ہو کر جس انداز سے فر فر انگریزی بولتے ہیں یہ ان کا ہی کرشمہ ہے۔ وہ جب چاہیں جرمنی جاپان کو ملا دیں، ان کے کرشمے ایسے ہیں کہ اسمارٹ لاک ڈٓاؤن کی عمران خان کی پالیسی کو بعد میں دنیا بھر میں فالو کیا گیا، ان کے ایسے کرشمے ہیں کہ نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر کے مشیر معید یوسف امریکہ سے والدین کی دیکھ بھال کے لیے پاکستان آتے ہیں مگر پھر یہاں مشیر کے عہدے پر فائز کر دیے جاتے ہیں۔ اور عمران خان کے ہی کرشمے کی بدولت ایسا ممکن ہوا۔ وزیراعظم کے مزید کرشموں کو اگر دیکھا جائے تو ان میں سب سے بڑا کرشمہ یہ ہے کہ وزیراعظم جس چیز کا نوٹس لیتے ہیں وہ نایاب ہو جاتی بلکہ یوں کہیں گوہر نایاب ہو جاتی ہے جس چیز کی انکوائری کا حکم دیں اس کے دام ہی بڑھ جاتے ہیں۔ وزیراعظم کی طرف سے جب انکوائری کا حکم صادر ہوا تو چینی کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہونا شروع ہو گیا جو ابھی تک نہیں تھم سکا اور اب چینی کی قیمت نے بھی سینچری عبور کر لی ہے اور وزیراعظم کے سابقہ دوست اور انویسٹر جو چینی کے ایک بڑے ٹائیکون ہیں آرام سے لندن بیٹھے ہیں اور عمران خان کے کرشموں کا پھل کھا رہے ہیں۔

وزیراعظم پٹرول سستا کرتے ہیں تو ہائی اوکٹین کی سیل شروع ہو جاتی ہے اور پٹرول نایاب ہو جاتا ہے اور پھر ہائی اوکٹین جیس نایاب چیز عام آدمی کے لیے بھی دستیاب ہو جاتی ہے۔ وزیراعظم کراچی میں لوڈ شیڈنگ کا نوٹس لیتے ہیں تو بارش کے بعد کرنٹ سے قیمتی انسانی جانیں چلی جاتی ہیں۔ وزیراعظم ڈالر کا نام لیتے ہیں تو ڈالر پہلے تو نایاب ہو جاتا ہے اور پھر اس کی قیمت بھی اپنی بلندیوں کی طرف رواں دواں ہو جاتی ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ وزیراعظم جب کہتے ہیں کہ مودی جیتے گا تو مسئلہ کشمیر بھی حل ہو جائے گا اور مودی کے جیتنے کے بعد اپنے حساب سے اس نے مسئلہ حل کر کے وزیراعظم کی بات کا بھی جواب دیا ہے۔ وزیراعظم پی آئی اے کو خسارے سے نکالنے کی بات کرتے ہیں تو ان کے وزیر کے صرف ایک بیان سے پی آئی اے کی پروازیں بھی نایاب ہو جاتی ہیں اور دنیا کے کئی ممالک میں پہنچنے سے قاصر ہو جاتی ہیں۔ وزیراعظم آٹے کی قیمتوں کا نوٹس لیتے ہیں تو گندم کی کٹٓائی کے سیزن میں بھی گندم مارکیٹ سے نایاب ہو جاتی ہے اور یوں آٹے کی قیمتوں کو بھی پر لگ جاتے ہیں۔ اور خود ان کے وزیر فلور آف دی ہائوس کہتے ہیں کہ پہلی بار ایسا ہوا کہ سمجھ ہی نہیں آ رہی گندم کدھر جا رہی ہے، اس سے پہلے شاید گندم کبھی اتنی نایاب نہیں تھی۔ اب حالیہ دنوں میں ہی دیکھ لیں تو تو ادویات کی قیمتیں 262 فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے اور وجہ اس کی بھی بہت سادہ سی ہے کہ اب مارکیٹ میں یہ ادویات عام آدمی کو بھی دستیاب ہوں گی کم قیمت پر ایسا ممکن نہیں تھا اب ہم جیسے ان پڑھ اور سوجھ بوجھ سے عاری لوگوں کو سمجھ ہی نہیں آتی۔ پہلے ادویات میں 500 فیصد اضافہ ہوا جس کے بعد ایک وزیر کو وزارت سے ہٹا کر تنظیم سازی پر لگا دیا گیا لیکن ادویات کی قیمتیں جوں کی توں رہیں۔ کیونکہ عام آدمی کے لیے دستیابی زیادہ ضروری تھی اور اب بھی یہی حال ہے۔ ملک میں کوئی چیز بھی اگر مہنگی ہوتی ہے تو خان صاحب اور ان کے وزرا کے پاس اس کی بہترین منطق ہوتی ہے جیسے کہ دو روٹی کی بجائے ایک روٹی کھا لیں۔ ہیلی کاپٹڑ 55 روپے کلومیٹر چلتا ہے، گیز لگژری لائف اسٹائل کی نشانی ہے سردویں میں صرف کھانے کے وقت ہی گیس میسر ہونی چاہیے۔ یہ ساری وہ منطق ہیں جو مہنگائی کے بڑے سے بڑے جن کو بھی بوتل میں قید کر دیتی ہیں۔

جناب وزیراعظم اور ان کی ٹیم کے کرشمے اپنی جگہ مگر جناب وزیراعظم شاید عام آدمی اتنے بڑے بڑے کرشموں کو برداشت نہیں کر پا رہا،ملک میں آبادی کا زیداہ حصہ عام اور غریب سے لوگ ہیں اس لیے شاید اتنے بڑے کرشمے ہضم نہیں ہو رہے۔ آپ اپنے کرشموں کی تجلی کو ذرا کم کریں اور ایسے کرشمے دکھائیں جو عام آدمی کے لیے کچھ سکون کا باعث بنیں۔ آپ کی کرشماتی شخصیت نے دیہاڑی دار، کم آمدنی اور متوسط طبقے کو اب آپ کا ہی قول یاد دلانا شروع کر دیا ہے جس میں آپ فرماتے ہیں کہ سکون صرف قبر میں ہی ہے۔ جناب وزیراعظم آپ چوروں ڈاکووں کو بالکل بھی این آر او نہ دیں لیکن اس فہرست میں سے غریبوں اور لاچاروں کو نکال دیں، جیسے آپ نے اپوزیشن کے معاملات دیکھنے کے لیے کمیٹی قائم کی ہے اسی طرح کی ایک کمیٹی غریبوں کو این آر او دینے کے لیے قائم کر لیں غریب کو معاف کر دیں کیونکہ عام اشیائے ضروریہ سے لے کر بجلی گیس اور روز مرہ زندگی کی ہر چیز اب غریب کی پہنچ سے دور ہو رہی ہے۔ اب عام آدمی آپ سے ایک ہی مطالبہ کرتا ہے کہ خان صاحب معافی ملے گی ۔۔۔ معافی؟؟ یا ان 5 سالوں میں کوئی ارادہ نہیں آپ کا۔ غربت کو مٹٓئیں غریب نہیں، مہنگائی کو ختم کریں نہ کے مافیا کے دبائو میں آ کر مہنگائی کرتے جائیں۔ اگر حالات بدستور یہی رہے تو خان صاحب لوگ 1992 کے ورلڈ کپ اور آپ کی انگریزی میں تقریروں اور ریاست مدینے کے نعرے کو بھول جائیں گے اور اپوزیشن جسے آپ چور ڈاکو کہتے ہیں ان کے ساتھ سڑکوں پر ہوں گے پھر آپ کے لیے سہارا بننا کسی کے لیے بھی مشکل ہو گا