پاکستان تحریکِ انصاف کا دورِ اقتدار ناکامیوں سے عبارت ہے

عمران خان نے اپنی تقاریر میں وعدہ کیا کہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے لیے ایک کروڑ نوکریاں دیں گے لیکن جب اقتدار میں آئے تو عمران خان مزید نوجوانوں کو تو روزگار فراہم نہ کر سکے البتہ جن کے پاس پہلے سے نوکریاں تھیں ان کو بھی بڑھتی مہنگائی نے بے روزگار کر دیا۔

پاکستان تحریکِ انصاف کا دورِ اقتدار ناکامیوں سے عبارت ہے

2018 کا سال پاکستان میں عام انتخابات کا سال تھا جس کے نتیجے میں عمران خان پاکستان کے بائیسویں وزیراعظم منتخب ہوئے۔ وہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے جن کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔ پاکستان تحریک انصاف نے ساڑھے 3 سال حکومت کی اور عمران خان نے بطور وزیر اعظم اپنی خدمات سر انجام دیں۔

عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے اپنے جلسوں میں 100 دن کا ایکشن پلان پیش کیا۔ اقتدار میں آنے کے بعد یہ 100 دنوں کا ایکشن پلان مکمل نہ ہو سکا اور پاکستان کے عوام کو نا امیدی کا سامنا کرنا پڑا۔ عمران خان کی تقاریر سے پاکستان کے عوام کی ایک بڑی تعداد پر امید تھی کہ وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان اپنے ان منصوبوں، وعدوں اور دعوؤں کو عملی جامہ پہنائیں گے اور ان کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے، جن کے تحت پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ اور بیرون ملک سے کرپشن کے پیسے کی واپسی، بیرونی قرضوں میں کمی، اداروں خصوصاً پولیس میں اصلاحات، جنوبی پنجاب صوبے کا قیام، وزیر اعظم ہاؤس میں یونیورسٹی کا قیام، ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھروں کے ساتھ ساتھ ملک میں معاشی ترقی کے ایک نئے باب کا آغاز اور احتساب کا عمل شروع ہونا تھا۔

اس کے برعکس اقتدار میں آنے کے بعد کی ہولناکیوں اور ملک میں بڑھتی مہنگائی اور کرپشن میں اضافے سے عوام کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا اور ملک کی معاشی اور سیاسی حالت دن بدن خراب ہوتی چلی گئی۔ یہ تمام وعدے عمران خان وفا نہ کر سکے اور اس ناکامی کا اعتراف وہ خود بھی کر چکے ہیں۔

عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ملک میں کڑا احتساب ہو گا، کرپٹ عناصر کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا اور ملک سے کرپشن کا خاتمہ کیا جائے گا۔ لیکن صحافی عارفہ نور نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت احتساب کے محاذ پر بری طرح ناکام ہوئی، عمران خان کی حکومت سے توقع بھی یہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں احتساب کے عمل کو گہری نظر سے دیکھنے والے جانتے ہیں کہ پاکستان میں احتساب کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے اور تحریک انصاف کا دور بھی کچھ مختلف نہیں تھا۔ اس طرح شفاف احتساب کا بیانیہ بھی محض کھوکھلا دعویٰ ہی ثابت ہوا۔

عمران خان نے اقتدارمیں آنے سے پہلے اپنے جلسوں میں پاکستان کی معیشت کو مضبوط کرنے کے بڑے بڑے دعوے کیے اور کہا کہ پاکستان کو ایک مستحکم اور مضبوط معیشت کی ضرورت ہے جو صرف اور صرف تحریکِ انصاف ہی پاکستان کو فراہم کر سکتی ہے اور یہ پاکستان تحریکِ انصاف کے لیے معاشی محاذ پر بہت بڑا چیلنج بھی تھا۔ عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے، ملکی قرضہ کم کریں گے اور مہنگائی کا خاتمہ کریں گے۔ لیکن پھر جب اقتدارِ عمران آیا تو روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی ہوئی اور ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا۔ مہنگائی سے لے کر قرضوں کے حجم تک میں اضافہ ہوا اور پاکستان کی معیشت مزید بحرانوں میں جھونک دی گئی۔

عمران خان نے اپنی تقاریر میں وعدہ کیا کہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے لیے ایک کروڑ نوکریاں دیں گے لیکن جب اقتدار میں آئے تو عمران خان مزید نوجوانوں کو تو روزگار فراہم نہ کر سکے البتہ جن کے پاس پہلے سے نوکریاں تھیں ان کو بھی بڑھتی مہنگائی نے بے روزگار کر دیا۔ پاکستان کے ادارہ شماریات کے لیبر سروے میں کہا گیا کہ تین سالوں میں 55 لاکھ نوکریاں پیدا ہوئیں لیکن صحافی تنویر ملک سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے سابق وفاقی وزیر خزانہ حفیظ پاشا نے اس بات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ختم ہونے کی وجہ سے یہ دعویٰ محض سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت یہ تمام دعوے صرف اپنے سیاسی مفاد میں کر رہی ہے۔

پاکستان تحریکِ انصاف نے آئی ایم ایف سے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا قرض وصول کیا اور اس رقم کو عوام کی فلاح اور ترقیاتی کاموں میں صرف کرنے کے بجائے لوٹ مار کا بازار گرم رکھا۔ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے بعد عمران خان کی حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد نہ کروایا جس کی وجہ سے ملک میں افراتفری کی سی صورت حال پیدا ہو گئی۔

عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک میں سیاسی بحران پیدا ہو گیا۔ عمران خان کی حکومت میں تیزی سے بدلتے وزرا اور کرپشن کی کہانیاں بھی عوام کے سامنے ہی ہیں۔ پنجاب میں عثمان بزدار وزیر اعلیٰ کے طور پر فائز تھے اور انہوں نے پنجاب میں سنگین کرپشن کی۔ اس طرح عمران خان کا کرپشن کے خاتمے کا دعویٰ بھی جھوٹا ثابت ہوا۔

وزیر اعظم عمران خان کا دور حکومت ان کے اس اعلان سے شروع ہوا جس میں انہوں نے انڈیا، امریکہ سمیت تمام ممالک سے بہتر تعلقات قائم کرنے کا اعادہ کیا تھا لیکن ان کے دورِ حکومت کے اختتام پرعمران خان نے امریکہ پر الزام لگایا کہ اس نے ان کی حکومت گرانے کے لیے سازش کی۔ یوں عمران خان اپنی حکومت کے اختتام پر دوست ممالک کے ساتھ ملکی تعلقات بھی خراب کر گئے۔

اقتدار میں آنے سے پہلے عمران خان آزادیِ اظہار رائے کے حق میں بیانات دیتے رہے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف حکومت کا دور میڈیا کے حوالے سے شدید متنازعہ رہا۔ کبھی سوشل میڈیا پر نا پسندیدہ صحافیوں کی فہرستیں سامنے آئیں، تو کبھی ان کے حامیوں پر صحافیوں کے خلاف آن لائن ٹرولنگ کے الزامات لگے۔ آزادی اظہار رائے پر پابندی کی کوششوں سمیت تحریک انصاف دور میں ایسے قوانین متعارف کروانے کی بھی کوشش کی گئی جن پر مقامی اور بین الاقوامی سطح پر صحافتی تنظیموں نے احتجاج کیا۔ عمران خان کے خواتین صحافی کے خلاف نازیبا بیانات بھی قابلِ مذمت ہیں۔

عمران خان اداروں کو خود مختار بنانے کی باتیں کرنے والے تھے لیکن اقتدار میں جب آئے تو عدلیہ اور ججز کو اپنے بیانات سے ہراساں کرتے نظر آئے۔ الغرض پاکستان تحریکِ انصاف کا دور کھوکھلے دعوؤں کی داستانوں سے بھرا پڑا ہے۔

ہنزہ ماس کمیونیکیشن کی سٹوڈنٹ ہیں اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم فل کر رہی ہیں۔