Get Alerts

کیا 'حق دو تحریک' گوادر کی انتخابی سیاست کے جمود کو توڑ پائے گی؟

سیاسی حوالے سے بلوچستان کا مغربی شہر قوم پرستوں کا گڑھ رہا ہے مگر وقت اور حالات بدلنے کے ساتھ ساتھ اب اس علاقے میں الیکشن کے وقت ووٹ اور نوٹ لازم و ملزوم بن چکے ہیں۔ اس خطے میں قبائلی اور جاگیر دارانہ نظام نہیں مگر میر و معتبر اور مذہبی شخصیات کا ماضی میں الیکشن میں اہم رول رہا ہے۔

کیا 'حق دو تحریک' گوادر کی انتخابی سیاست کے جمود کو توڑ پائے گی؟

جزیرہ نما شہر گوادر قدرتی بندرگاہ اور پاکستان چائنہ اقتصادی راہداری کی وجہ سے دنیا بھر میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتا ہے اور دنیا کی نظریں اس خطے پر مرکوز ہیں۔

سیاسی حوالے سے بلوچستان کا مغربی شہر قوم پرستوں کا گڑھ رہا ہے مگر وقت اور حالات بدلنے کے ساتھ ساتھ اب اس علاقے میں الیکشن کے وقت ووٹ اور نوٹ لازم و ملزوم بن چکے ہیں۔

اس خطے میں قبائلی اور جاگیر دارانہ نظام نہیں مگر میر و معتبر اور مذہبی شخصیات کا ماضی میں الیکشن میں اہم رول رہا ہے۔ گذشتہ دو سالوں میں گوادر کی سیاست کافی حد تک بدل چکی ہے۔

1985 کے ضیاء دور کے غیر جماعتی الیکشن سے لے کر 2018 کے عام انتخابات تک ضلع گوادر کی صوبائی اسمبلی کی نشست پر تین خاندان براجمان رہے ہیں اور گذشتہ 15 سالوں سے لگاتار میر حمل کلمتی تخت گوادر کے بادشاہ رہے ہیں۔

1985 کے غیر جماعتی الیکشن میں گوادر صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں پر مشتمل تھا۔ پسنی اور اورماڑہ سے ذکری فرقے کے مذہبی پیشوا سید داد کریم مرحوم جبکہ گوادر جیوانی کی نشست پر میر عبدالغفور کلمتی منتخب ہو گئے۔

1988 کے عام انتخابات میں پی این پی کے امیدوار میر حسین اشرف 14 ہزار سے زائد ووٹ لے کر ایم پی اے گوادر منتخب ہو گئے اور اس کی مدمقابل آئی جے آئی کے امیدوار میر عبدالغفور کلمتی 6 ہزار ووٹ لے سکے۔ یاد رہے اسی سال بے نظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنی تھیں اور پیپلز پارٹی کے مخالفین نے آئی جے آئی بنائی تھی۔ یہ اسمبلیاں صرف دو سال بعد توڑ دی گئی تھیں۔

1990 کے عام انتخابات میں ایک بار پھر گوادر سے میر حسین اشرف 12 ہزار سے زائد ووٹ لے کر جیت گئے اور مخالف امیدوار عابد رحیم سہرابی ساڑھے 5 ہزار کے قریب ووٹ لے سکے۔ یہ اسمبلی بھی اپنی مدت پوری نہ کر سکی اور یوں میر حسین اشرف اپنے دونوں ادوار میں پانچ سال پورے نہ کر سکے۔ اس کے بعد سے میر حسین اشرف اور ان کے صاحب زادے میر اشرف حسین گوادر کی نشست جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔

1993 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے سید شیر جان بلوچ نے معمولی ووٹوں کے فرق سے بی این ایم کے میر عبدالغفور کلمتی کو ہرایا جبکہ میر حسین اشرف 6 ہزار کے قریب ووٹ حاصل کر سکے۔ یہ اسمبلی بھی حسب روایت اپنی مدت پوری نہ کر سکی۔

1997 کے الیکشن میں بی این پی متحدہ کے میر عبدالغفور کلمتی 10 ہزار سے زائد ووٹ لے کر ایم پی اے منتخب ہو گئے جبکہ مدمقابل بی این ایم کے عابد رحیم سہرابی 6 ہزار کے قریب اور آزاد امیدوار حسین اشرف 4 ہزار سے کم ووٹ حاصل کر پائے۔ میر عبدالغفور کلمتی سردار اختر جان مینگل کی کابینہ میں وزیر کھیل و ثقافت مقرر ہوئے۔ بی این پی اندرونی اختلاف کا شکار ہو کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی اور یہ حکومت اپنی مدت پوری نہ کر سکی۔ 12 اکتوبر 1999 کو پرویز مشرف نے نواز حکومت کا تختہ الٹ کر ملک کی تمام اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ بی این پی متحدہ کئی دھڑوں میں تقسیم ہو گئی اور میر عبدالغفور کلمتی بلوچستان نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کا حصہ بن گئے۔

مشرف دور حکومت میں 2002 میں جب انتخابات ہوئے تو وفاق کی طرح بلوچستان میں بھی مسلم لیگ ق کو اقتدار ملا۔ گوادر کی نشست پر آزاد امیدوار سید شیر جان بلوچ کامیاب رہے اور بی این ایم کے عابد رحیم سہرابی ساڑھے 9 ہزار جبکہ سید شیر جان نے 12 ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ سید شیر جان بلوچ الیکشن جیتنے کے بعد مسلم لیگ ق میں شامل ہو گئے اور صوبائی وزیر کے منصب پر فائز رہے۔

2008 کے الیکشن میں گوادر سے میر عبدالغفور کلمتی کے صاحبزادے میر حمل کلمتی پہلی بار میدان میں آئے اور بلوچستان بھر میں قوم پرست جماعتوں نے اس الیکشن کا بائیکاٹ کیا۔ گوادر میں بائیکاٹ کے باوجود نیشنل پارٹی نے مسلم لیگ ق کے امیدوار میر حمل کلمتی کو نہ صرف سپورٹ کیا بلکہ انتخابی مہم میں نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے ق لیگ کے امیدوار کے لیے کام بھی کیا۔ میر حمل کلمتی 15 ہزار سے زائد ووٹ لے کر ممبر صوبائی اسمبلی بنے اور صوبائی وزیر ماہی گیری بن گئے۔ ان کے مدمقابل آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے والے میر اشرف حسین نے 8 ہزار سے زائد اور سید معیار جان نوری نے 7 ہزار کے قریب ووٹ حاصل کیے۔ سید معیار جان تحصیل ناظم پسنی بھی رہ چکے ہیں اور عام انتخابات میں سید معیار جان کی یہ پہلی اور اہم انٹری تھی۔ اس وقت سید معیار جان ضلعی چیئرمین گوادر کے منصب پر براجمان ہیں۔

2013 میں بلوچستان میں شورش کا ماحول تھا اور تحصیل پسنی کے زیادہ تر پولنگ سٹیشنز پر ووٹر نظر نہیں آئے۔ جبکہ ماضی کے حریف نوری فیملی اور کلمتی فیملی اب حلیف بن گئے تھے۔ صوبائی اسمبلی کی نشست پر میر حمل کلمتی جبکہ گوادر کم کیچ کی قومی اسمبلی کی نشست پر سید عیسیٰ نوری الیکشن لڑ رہے تھے۔ بی این پی کے امیدوار میر حمل کلمتی 14 ہزار کے قریب ووٹ لے کر دوسری مرتبہ کامیاب ہوئے جبکہ اس کے مدمقابل نیشنل پارٹی کے میر یعقوب بزنجو 6 ہزار جبکہ مسلم لیگ ن کے میر اشرف حسین 3 ہزار کے قریب ووٹ لے سکے۔ قومی اسمبلی کی نشست پر پہلی بار ضلع گوادر کے سید عیسیٰ نوری کامیاب ہوئے اور تاریخ میں پہلی مرتبہ گوادر کو قومی اسمبلی کی نشست ملی۔

2018 کے الیکشن میں بھی یہ اتحاد برقرار رہا اور بی این پی کے امیدوار میر حمل کلمتی 31 ہزار سے زیادہ ووٹ لے کر گوادر کی نشست جیت گئے جبکہ ان کے مدمقابل بلوچستان عوامی پارٹی کے میر یعقوب بزنجو 16 ہزار سے زیادہ اور نیشنل پارٹی کے میر اشرف حسین 7 ہزار سے زائد ووٹ لے سکے۔ گوادر کی انتخابی تاریخ میں اسی الیکشن میں سب سے زیادہ ووٹ پڑے اور ٹرن آؤٹ 50 فیصد سے زائد رہا۔

2013 کی نسبت اس مرتبہ گوادر کے حالات بھی بہتر تھے کیونکہ 2013 میں انسرجنسی کی وجہ سے زیادہ تر پولنگ سٹیشن ویران تھے۔ اس مرتبہ انتخابی مہم میں کافی جوش و خروش رہا اور گوادر کے نوجوان ووٹرز نے پولنگ بوتھوں کا رخ کیا تھا۔

2024 کے متوقع الیکشن کے حوالے سے گوادر کی سیاست کافی حد تک بدل چکی ہے۔ اس وقت گوادر میں جماعت اسلامی کے صوبائی جنرل سیکرٹری مولانا ہدایت الرحمن کی سربراہی میں ایک نئی تحریک ' حق دو تحریک' ابھر کر سامنے آئی ہے اور ضلع بھر میں لوگوں کی بڑی تعداد اس وقت ' حق دو تحریک' کے ساتھ ہے۔ گذشتہ سال ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں گوادر شہر میں آل پارٹیز اتحاد کے نام پر گوادر کی متعدد سیاسی پارٹیوں پر مشتمل اتحاد کو اس تحریک نے بھاری اکثریت سے شکست دی تھی جبکہ پسنی اور اورماڑہ شہر میں بھی ' حق دو تحریک' ایک بڑی تحریک بن کر ابھری ہے۔

بی این پی مینگل البتہ اپنے اتحادیوں نوری پینل اور سید مہیم جان پینل کے ساتھ مل کر پسنی، اورماڑہ اور جیوانی کی تحصیلوں میں چیئرمین لانے کے ساتھ ساتھ اپنا ضلعی چیئرمین بھی بنوانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ جبکہ نیشنل پارٹی کو ضلع بھر میں عبرتناک شکست سے دو چار ہونا پڑا ہے۔

الیکشن میں ابھی چند ماہ باقی ہیں اور امکان ہے اس مرتبہ نئے اتحاد بن سکتے ہیں اور گوادر کی سیاسی صورت حال میں ڈرامائی تبدیلی کا امکان ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی کے حریف اس مرتبہ حلیف بن جائیں گے جبکہ سیاسی جماعتیں ذکری فرقے کے مذہبی پیشواؤں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے بھی سرتوڑ کوششیں کریں گی۔