پاکستان کی سیاسی تاریخ عاقبت نااندیش سیاسی تجربوں سے متعلق ہے، ایسے تجربے جن کی مروجہ سیاسی تصورات میں قاعدے کے بجائے استثنا کی حیثیت ہے اور جن کو اندرونی اور بیرونی دنیا میں ناپسندیدگی کی نظر سے ہی دیکھا جاتا ہے۔ حالیہ تجربہ جسے "کنٹرولڈ جمہوریت" کی اصطلاح سے بھی جانا جاتا ہے، بنیادی طور پر "احتساب" کے ستون پر استوار ہے۔ احتساب کی اصطلاح یہاں اپنے حقیقی معنوں میں استعمال نہیں ہوتی بلکہ اس "احتساب" سے مراد پراپیگنڈہ کا وہ ہتھیار ہے جس کے بے دریغ استعمال کے ذریعے آئین میں سے غیر آئینی بندوبست، انتخابات سے غیر منتخب حکومت، آزاد عدلیہ سے محصور و محکوم عدلیہ، صحافت سے غیر صحافتی میڈیا، حقیقی جوابدہی سے مسخ شدہ احتساب، غیر جانبدار انتظامیہ سے منظور نظر و تابع انتظامیہ، معقولیت سے غیر معقول بیانیہ الغرض جمہوریت سے عدم جمہوریت کشید کرنا مقصود تھا۔
بدقسمتی سے یہ تجربہ اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب رہا اور پاکستان میں "نیا پاکستان" کے نام پر موجودہ کٹھ پُتلی حکومت قائم ہو گئی۔
کنٹرولڈ جمہوریت کیلئے جب یہ آپریشن شروع ہوا تو ابتدا میں احتساب کا آغاز سیاستدانوں سے ہوا۔ نواز شریف جو خود ماضی کے تجربوں میں اہم مہرے کے طور پر استعمال ہوتے ہوئے وزیراعظم کے عہدہ اپنی نام کر چکے تھے، اب "احتساب" کے نشانے پر سب سے بڑے ہدف کے طور پر چنے گئے، اس "احتساب" میں ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں "ڈوگر عدلیہ" کی اصطلاح دوبارہ باروں میں دوہرائی جانے لگی۔ سیاستدانوں کے بعد اگلا نمبر انتظامی افسران کا آیا، جنہیں نئے تجربے کے پیشِ نظر ایک سخت پیغام دیا جانا مناسب سمجھا گیا، "ڈوگر عدلیہ" کے انصاف کی بدولت یہ رکاوٹ بھی بآسانی دور ہو گئی۔
اب اگلا ہدف خود عدلیہ تھی، آغاز اسلام آباد سے ہوا، اسلام آباد ہائیکورٹ پہلا وار تو سہہ گئی لیکن دوسرے وار سے پہلے وکلا تنظیمیں اپنے پیروں پر کھڑی ہو چکی تھیں۔ "احتساب" کا دائرہ سپریم کورٹ تک پھیلانے کی کوششیں ناکام ہو گئیں اور اس میں ججوں سے زیادہ وکلا تنظیموں نے اہم کردار ادا کیا۔ ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ کے ادوار میں یہ تاثر مضبوط ہوا کہ عدلیہ کو کمزور کیا جا چکا ہے۔
میڈیا میں دو ہی معتبر ادارے ہیں جنگ گروپ اور ڈان گروپ، سو ان دونوں کو تنگ کرنے کی کوششیں تو جاری رہیں۔ اس نئے سیاسی تجربے نے ناکام ہونا ہی تھا کہ ناکامی اس کی گٹی میں تھی۔ سو چند مہینوں کے بعد ناکامی چھپانے کیلئے "احتساب" کی تلوار سازشی میان سے دوبارہ نکالنی پڑی۔ سیاستدان، عدلیہ، میڈیا، سب "قابلِ احتساب" ٹھہرے۔ حقیقی سیاستدانوں کو جیلوں میں پھینکنے کا نیا سلسلہ شروع ہوا، اسلام آباد ہائیکورٹ کو کہنا پڑا کہ اب نیب ججوں کو بھی بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ میر شکیل الرحمان کو سلاخوں کے پیچھے کھڑا کر کے تصویر لیک کرنا پڑی، مقصود تذلیل تھی لیکن سلاخوں کے پیچھے میر شکیل الرحمان کی تصویر ان کی تکریم بن گئی اور آج نیب عوامی احتساب کی سلاخوں کے پیچھے پابند سلاسل ہے۔
یہ وہ افراتفری تھی جس میں عالمی وبا کرونا نے پاکستان پر حملہ کر دیا۔ حکومت نام کی کوئی چیز بیشتر پاکستان میں موجود ہی نہیں تھی۔ سندھ میں بلاول بھٹو کی قیادت نے خطرے کو بھانپنا شروع کیا لیکن باقی پورا پاکستان کرونا کے رحم و کرم پر تھا۔ بروقت فیصلے نہیں کئے گئے۔ کرونا کے خطرے پر بھی کٹھ پتلی حکومت نے روایتی نااہلی، کم فہمی، ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی کی روش برقرار رکھی۔ جب کرونا چین اور اٹلی میں تباہی پھیلا رہا تھا، پاکستان میں سیاسی، مذہبی اور کھیلوں کے اجتماعات کو نہیں روکا گیا۔ لاک ڈاؤن میں مجرمانہ تاخیر کی گئی، معمولی جرائم میں قید انڈر ٹرائل اور معمولی سزا والے قیدیوں تک کیلئے حکومت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا، حالانکہ وہاں سے کرونا جیلوں، عدالتوں، پولیس اور انتظامیہ میں پھیلنے کا حقیقی خطرہ تھا۔ حکومت کا کام عدالتوں کو کرنا پڑا، اسلام آباد ہائیکورٹ نے پہلا قدم اٹھایا اور باقی ہائیکورٹس نے پیروی کی۔
صحت کے شعبے کوہنگامی بنیادوں پر ضروری وسائل اور حوصلہ فراہم کرنے میں بھی کٹھ پتلی حکومت ناکام رہی۔ نتیجتا، کرونا پھیلتا گیا اور اب پاکستان کرونا کی قیامت کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ آنے والے دن درد بھری کہانیوں سے عبارت ہونے کو ہیں۔ قوم اس عذاب سے ایک نہ ایک روز نکل آئے گی لیکن کیا اصل مجرموں کا اصل احتساب کبھی ہو پائے گا؟