ججز پر دباؤ کا معاملہ بھی ایسے ہی ہے جیسے کبھی اسلام آباد میں پولیس اصلاحات سے قبل اسلام آباد ٹریفک پولیس کے منتظمین جناح اور جمہوریت کے نام پر منسوب شاہراہوں کے سنگم میں واقع چوک جسے ڈی چوک اور انصاف کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے اور فیصل ایوینو چوک میں کھڑے مال اکٹھا کر رہے ہوتے تھے۔ ان کی پینٹوں کی جیبیں پھٹ کر نوٹ باہر جھانک رہے ہوتے تھے اور حیرت کی بات ہے کہ یہاں سے پاکستان کی ساری مقتدرہ گزر کر کانسٹیٹیوشنل ایوینو پر واقع انصاف اور جمہوریت کے نام پر قائم ایوان زیریں و بالا اور انصاف کے ایوانوں میں جاتی تھی جن میں وزیر اعظم، صدر پاکستان، چیف جسٹس، چیف آف آرمی سٹاف، پولیس کے محکمے کے سربراہ اور اینٹی کرپشن محکمے کے اہلکار شامل ہوتے تھے مگر کسی کو وہ رشوت ستانی نظر نہیں آتی تھی۔ ایسا ہی معاملہ مجھے تو یہ عدلیہ کے ججز پر دباؤ والا بھی لگتا ہے۔ گویا پہلے تو یہ کسی کے علم میں ہی نہیں تھا اور اب ججز کے خطوط سے اس پر یوں شوروغوغا شروع ہو گیا ہے جیسے کوئی بہت بڑی انہونی ہو گئی ہے۔
ہاں پہلے والا عدالتی اور سیاسی کلچر کچھ اس طرح کا تھا جس میں سرگوشیوں میں ایسی باتیں ہوا کرتی تھیں اور پھر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اس کلچر سے بغاوت کرتے ہوئے بار روم میں یہ بھانڈا پھوڑ دیا جس کے بعد جو ان کے ساتھ ہوا وہ ایک تاریخ ہے۔ ان کے اپنے ہی ججز ساتھی جنہوں نے بقول ان کے اس مروجہ ثقافت سے انحراف کے پیش نظر ان سے سوشل بائیکاٹ کر دیا اور یہی لوگ ان کوعہدے سے بھی فارغ کرنے کے نظام انصاف کا حصہ تھے۔ اس کے نتائج یہ نکلے کہ 1 کا ہندسہ 6 میں بدل گیا اور آج جب شوکت عزیز صدیقی کئی سال کے بعد اپنی مراعات کے حقدار بن چکے ہیں تو یہ لوگ اب ان کے لگائے گئے الزامات کی تحقیق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
'بدلتا ہے آسمان رنگ کیسے کیسے'
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں اپنی ذاتی مشکلات کے مدنظر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے مؤقف کی تائید کرنی پڑ رہی ہے جس کا وہ پہلے مذاق اڑاتے رہے ہیں۔ بلکہ کہا جاتا تھا کہ انہوں نے ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی ہے تو ایسے میں کہا جا سکتا ہے کہ 'روندی یاراں نوں ناں لے لے کے بھراواں دا'۔ اگر یہ 6 ججز اس وقت اس معاملے کو سنجیدہ لیتے تو شاید آج ان کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا اور نا ہی ہمارے نظام عدل کی دنیا میں جگ ہنسائی ہوتی۔ کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ اس طرح کی خبروں سے قوموں کے چہرے کس قدر مسخ ہوتے ہیں اور اس کے تشخص لگے یہ بد نما داغ مٹانے مشکل ہو جاتے ہیں۔
ججز اور حکومت کے مشورے کے بعد کمیشن ترتیب دیا گیا جس کی سربراہی کی تجویز بھی سپریم کورٹ نے دی تھی اور اس کے بعد میڈیا، وکلا اور سیاست دانوں کی طرف سے اعتراضات کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ سپریم کورٹ کو سوموٹو لینا پڑ گیا۔ اس ساری مشق کا فائدہ کیا ہوا؟ صرف یہیں نہیں بلکہ ملک کے انتظام و انصرام میں ہر سطح پر قوم کی صلاحیتیں ایسی ہی فضول سرگرمیوں میں ضائع ہو رہی ہیں۔ وجہ کیا ہے؟ اعتماد کا فقدان اور مفادات کی حوس۔ ہر کوئی دوسرے پر شاکی ہے جیسے ججز پر اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں کبھی حاضر سروس جج ہونے پر تو کبھی ریٹائرڈ جج ہونے پر، کبھی کمیشن کے ٹی او آرز پر تو کبھی سابقہ کمیشن کی رپورٹس پر استدلال کرتے ہوئے شکوک و شبہات پیدا کیے جا رہے ہیں۔
اگر غور کریں تو اس اعتماد کے فقدان کا اصل سبب ہی ججز، جرنیل ، بیوروکریٹ، سیاست دانوں کی اپنی سوچ اور ان کا عمل ہے۔ کیا جو ججز سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھ رہے ہیں ان کو قانون ایسے دباؤ سے نمٹنے کا اختیار نہیں دیتا اور اگر وہ اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے اس پر قابو پانے میں بے بس دکھائی دیتے ہیں تو قصور دباؤ ڈالنے والے کا زیادہ ہے یا اس دباؤ کو لینے والوں کا؟ انصاف کا تقاضا تو یہ بھی ہے کہ پہلے اس کا فیصلہ کیا جائے۔ کون آئینی و قانونی طور پر عہدے اور منصب کے لحاظ سے اس مسئلے کے حل کا ذمہ دار ہے؟ اگر ججز کو اپنے منصب اور رتبے کا احساس اور اندازہ ہوتا تو یہ نوبت ہی کیوں آتی؟
کیا کوئی خفیہ مقتدرہ سے ہو یا وردی میں ملبوس، اس دھرتی کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے تحفظ دینے والے ذمہ داران سب کانسٹیٹیوشنل ایوینو پر قائم بڑے بڑے ایوانوں میں اپنی خفیہ اور ظاہر سرگرمیوں کی رپورٹس لے کر پیش نہیں ہوتے جن کے گواہ ان ایوانون میں ایک پیج پر ہونے کے گونجتے نعرے ہیں جو اس پیج پر موجود شخصیات کے بدل جانے کے حالات سے تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کی آپس کی بدشگونیوں کا بھی خمیازہ ملک و قوم کو بھگتنا پڑ جاتا ہے۔
اصل معاملہ یہ ہے کہ کوئی بھی خواہ وہ جج ہو، سیاست دان یا خفیہ اداروں کا سربراہ ہو، ان معززین میں سے بہت سارے پورا سچ بولنے کے لیے تیار ہی نہیں اور آئین و قانون اور اختیارات میں سے جو بات اپنے مطلب، خواہش اور مقصد سے موافقت رکھتی ہے اس کی تعریفیں اور پرچار شروع کر دیتے ہیں اور جو ناموافق پڑتی ہے اس پر شورو غوغا گونج اٹھتا ہے۔ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا اب سوموٹو کے بعد معاملہ تھم جائے گا؟ اب بنچ میں بیٹھے ہوئے ججز پر اعتراضات نہیں اٹھیں گے بلکہ تحریک انصاف کی طرف سے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اعتراض اٹھا بھی دیا گیا ہے۔ اصل مسئلہ انصاف کے معیار کا ہے جس پر تاریخ اعتماد کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔
قانونی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو انکوائری کمیشن ایکٹ 2017 کے تحت بنائے جانے والے کمیشن میں سپریم کورٹ کا ریٹارئرڈ جج ہوتے ہوئے وہ سپریم کورٹ کے جج کے برابر تمام اختیارات رکھتا ہو گا جس کے تحت وہ کسی بھی طرح کی معلومات کے لئے کسی کو بھی طلب کرنے یا ریکارڈ منگوانے کا مجاز ہو گا اور اپنے احکامات پر عمل دارآمد کروانے کے لیے توہین عدالت کی کارروائی سمیت تمام اختیارات رکھتا ہو گا۔ اس لیے یہ خدشات اخذ کر لینا کہ ماضی کے کمیشنز کی طرح کچھ حاصل نہیں ہو گا، انتہائی نا مناسب ہے اور اس طرح کے خدشات کا علاج تو آئین و قانون کے پاس بھی موجود نہیں۔ سوائے جرات اور اعلیٰ اخلاقیات کی پاسداری کے جس کی ذاتی مفادات اور خواہشات کی سوچیں رکھنے والوں سے امید نہیں کی جا سکتی۔ اس کا ریٹائرڈ یا حاضر سروس ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
میں سمجھتا ہوں کہ جب خط میں موجودہ عدلیہ کے اندر ابھی بھی دباؤ کا تاثر دیا گیا ہے تو پھر عدلیہ کے اندر تو سپریم کورٹ بھی شامل ہے تو ایسے میں کسی ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں تحقیق تو مزید اہمیت اختیار کر جاتی ہے تا کہ موجودہ عدلیہ میں سے اگر کوئی الزامات لگاتا ہے تو اس سے شواہد طلب کیے جا سکیں اور اگر حاضر سروس کوئی جج دباؤ کے تحت فیصلے کرنے میں ملوث پایا جاتا ہے تو پھر اس بارے حکومت رپورٹ کی بنیاد پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیج سکے اور اگر کوئی عدلیہ کے باہر سے دباؤ میں ملوث پایا جائے تو اس کے خلاف بھی کارروائی کو عمل میں لانے کی ہدایات جاری ہوں اور اسی طرح اگر کسی ادارے پر الزامات غلط ثابت ہوتے ہیں تو الزامات لگانے والے کے خلاف بھی تادیبی کارروائی کو عمل میں لایا جانا چاہیے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ خط کے مندرجات میں ایک انتہائی سنگین مسئلے کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ججز پر دباؤ کی تو جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے لیکن اگر دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو کیا اسے نظام عدل میں ججز کی اپنی ہی زبانی انصاف کے ساتھ کیے جانے والے کھلواڑوں کی مخبری یا گواہی نہ سمجھا جائے جس کا آغاز جسٹس منیر اور جسٹس ارشاد حسن خان سے ہوتا ہے اور اسی فہرست میں شامل جسٹس نسیم حسن شاہ کے اعتراف کے بعد سپریم کورٹ نے حال ہی میں بھٹو کی سزا پر اپنے ادارے کی کوتاہیوں کو دھونے کی کوشش کی ہے۔ کیا اس سے ان کے عہدے اور منصب پر بھی سوال کھڑے نہیں ہوتے جن کا ان کو خود بھی احساس نہیں ہو رہا جس کی وجہ شاید ان کی تعیناتیوں کا طریقہ کار بھی ہے کہ وہ خود سیاست کی کوکھ سے جنم لیے ہوئے ہوتے ہیں جو بعد میں نا صرف ان کی مجبوریاں بنتی ہیں بلکہ انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹ کا بھی سبب بنتی ہیں۔ اسی لیے وہ اپنے اختیارات کے استعمال کی سکت نہیں رکھتے ہوتے اور اس بات کو یقینی نہیں بنا سکتے کہ جج کا عہدہ اور منصب ہر طرح کے دباؤ اور اثر و رسوخ سے بالا تر ہوتا ہے۔ اصل معاملہ محض دخل اندازی کا ہی نہیں بلکہ ججز کی کریڈیبلیٹی اور ان خدشات کی بنیاد پر ایک عام آدمی کے نظام انصاف پر اعتماد کا بھی ہے۔ اگر ججز دباؤ کو برداشت ہی نہیں کر سکتے تو پھر ان سے انصاف کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے یا ان کا اس عہدے پر رہنے کا کوئی جواز کیسے باقی بچتا ہے؟
ہمارے ماضی قریب کے نظام عدل نے تو فلسفہ قانون کو بھی بدل کر رکھ دیا ہے۔ جرائم کے پیچھے موٹیو کا تو سنا ہوا تھا لیکن ان سالوں میں تو فیصلوں کے پیچھے بھی موٹیو نظر آ رہا ہوتا ہے۔ حالات سے یوں لگتا ہے کہ ججز پر دباؤ اصل مسئلہ نہیں بلکہ دباؤ کی موافقت دکھائی دے رہا ہے اور دباؤ بھی صرف ایجنسیز کی طرف سے نہیں ہوتا بلکہ ماضی میں لیک ہونے والی ویڈیوز میں ججز کے خاندان کے لوگ بھی فیصلوں پر اثرانداز ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ سیاست دانوں سے تعلقات بھی ہوتے ہیں اور جوڈیشری اور حکمرانوں کا ایک دوسرے سے مفادات کا لین دین بھی ہوتا ہے اور اب یہ سارا کچھ ہمارے کلچر کا حصہ بن چکا ہے۔ اس لیے معاشرے کے معیار بھی فلسفہ قانون کے ساتھ ساتھ بدلے بدلے لگتے ہیں۔
قانون کی تشریحات بھی معاشرے کے انہی معیاروں کی مطابقت سے بدلتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ جس کی مثالیں حالیہ سالوں میں تو فراخدلی سے ملتی ہیں۔ ججز کے مزاج، حالات، حوالہ جات، خواہشات حتیٰ کہ سوشل میڈیا کا بیانیہ بھی اب تو قانون کی تشریحات کے ذرائع کے طور پر دکھائی دیتے ہیں اور انہی کی بنیاد پر بنائے گئے بنچز کے فیصلوں کی صحت پر اثرات تو کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ججز کے بدل جانے سے فیصلے بدل جاتے ہیں اور بنچز کی تشکیل سے فیصلوں کی پیش گوئیاں ہونے لگتی ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ 100 فیصد ٹھیک بھی نکلتی ہیں۔ انصاف بھی موسموں کی طرح بدلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ وہی واقعات، ملزمان اور شواہد ہوتے ہیں اور کبھی سزاؤں پر سزائیں سنائی جا رہی ہوتی ہیں تو پھر اچانک انصاف کا موسم ایسے بدلتا ہے کہ سزائیں بریت میں بدلنا شروع ہو جاتی ہیں۔
جہاں اتنے بڑے دباؤ ہوں تو کبھی کبھی دباؤ کے ذرائع کی آپس میں چپقلش بھی کوئی انہونی بات نہیں۔ یہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ موسم بدلنے سے یہی دباؤ جو آج موافق نہیں پڑ رہا یکدم موافق پڑنا شروع ہو جائے۔ کیونکہ دباؤ کی موافقت کو قائم کرنے کے کچھ آثار نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ ججز کے خطوط کے بعد وکلا کے خطوط شروع ہو گئے ہیں اور ان خطوط کی روشنی میں اداروں کی آرا بھی بدلنا شروع ہو گئی ہیں اور فیصلوں کے متن بھی موسموں کی تبدیلیوں کے اشارے دینے شروع ہو گئے ہیں۔
یہ جو دباؤ کو اچانک اتنا بڑا مسئلہ بنا دیا گیا ہے اس کے پیچھے بھی کسی خاص موٹیو کا شک ہو رہا ہے کیونکہ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر اُس وقت اِس طرح کا کوئی دباؤ جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر موجود تھا تو کیا وہ ان کے جانے کے بعد ختم ہو گیا تھا یا اسی دباؤ کے تحت اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے فیصلوں کا سلسلہ جاری رہا جس کی قوم ان سے اس تحقیق کے دوران سچ بتانے کی توقع رکھتی ہے جس کے بغیر یہ تاثر جائے گا کہ وہ اپنی حیثیت کو مضبوط تو دیکھنا چاہتے ہیں مگر جوابدہی کا ان کے اندر کوئی احساس موجود نہیں۔ سوال یہ بھی بنتا ہے کہ اگر ایسا کچھ ہوا ہے تو کیا اس سے ان کا غیر جانبدارانہ اور شفاف انصاف کی فراہمی کا حلف مشکوک نہیں ہو چکا؟
خط کو لکھنے کا وقت بھی کئی خدشات کی طرف اشارہ کرتا ہے جیسا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں مبینہ طور پر ایک سو کے قریب درخواستیں دائر ہو چکی ہیں جن میں سے چند ان ججز کے خلاف بھی ہیں جس سے یہ تاثر بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس کا مقصد دباؤ اور بیرونی اثرات سے آزادی نہیں بلکہ حکومت، عدلیہ، اداروں اور سپریم جوڈیشل کونسل پر دباؤ ڈالنا ہے اور اس خط کا یوں جوڈیشل کونسل کا رخ کرتے ہوئے میڈیا کے ہتھے چڑھ جانا بھی شکوک و شبہات پیدا کرتا دکھائی دیتا ہے جس کا جواب دینا بھی ججز کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے اور ان سے یہ سوال بھی بنتا ہے کہ جب ان کا کام ہی انصاف کی فراہمی ہے تو انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر قانونی ایکشن کیوں نہیں لیا؟
سپریم کورٹ میں کئی اور درخواستیں بھی آنا شروع ہو گئی ہیں جن میں سے ایک مبینہ طور پر میاں داؤد ایڈووکیٹ کی بھی ہے جس میں کچھ ایسے نقطے بھی اٹھائے گئے ہیں جو اس خط کو عدلیہ اور ملک کی عمومی سیاست سے جوڑنے کا منظرنامہ پیش کر رہے ہیں جن کی پاکستان کی عدلیہ اور عدالتی رائے کے اصولوں کے اندر کوئی نظیر نہیں ملتی جن میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا ہی عمران خان کی ضمانت کا ایک ایسا فیصلہ ہے جس میں ان کی طرف سے مستقبل میں کئے جانے والے تمام فرضی جرموں کی بھی پیشگی ضمانت دے دی گئی تھی اور اسی طرح کچھ لاہور ہائی کورٹ کے بھی فیصلے ہیں جن پر تحریک انصاف کی سہولت کاری کے الزامات پر آوازیں بلند ہوتی رہی ہیں اور جن میں ایک فیصلہ انتخابات کے دوران الیکشن کمیشن کو انتخابات کے انعقاد سے روکنے کا سٹے آرڈر بھی تھا جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور سپریم کورٹ نے اس پر سخت کمنٹس دیتے ہوئے انتخابات کو ڈی ریل کرنے کی کوشش کو ناکام بنایا تھا جس سے ہائی کورٹس کو اس طرح کے سہولت کاری کے تاثر والے فیصلوں بارے محتاط انداز اپنانے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔
ایسا بھی نہیں کہ ججز کے مؤقف کی تائید نہیں ہو رہی جیسا کہ میڈیا پر ان کے مؤقف کو سراہا بھی جا رہا ہے اور اب تو اس خط کی حمایت میں بار کونسلز اور ایسوسی ایشنز کی طرف سے اعلامیے بھی جاری ہو چکے ہیں اور بعض سیاسی جماعتیں اس پر اپنی سیاست کو آکسیجن دینے کی کوشش میں مصروف عمل دکھائی دے رہی ہیں۔ ججز نے اپنے فیصلوں پر دباؤ کا اظہار کر کے نا صرف عدلیہ کی ساکھ کو داؤ پر لگایا ہے بلکہ اپنے کئے ہوئے فیصلوں کو بھی مشکوک بنا دیا ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تحریک انصاف نے تو بانی تحریک انصاف کو دی جانے والی سزاؤں پر بھی سوالات کھڑے کر دیے ہیں جس کا یقیناً ان کو فائدہ ملے گا۔ تو ایسے منظرنامے میں یہ بھی دیکھنا ضروری نظر آتا ہے کہ ماضی میں اگر دباؤ تھا تو اس وقت اس کے بینیفشریز کون تھے اور آج اگر عدلیہ پر دباؤ ہے یا ججز اس خط کے ذریعے سے اداروں پر دباؤ ڈالنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس کے بینیفیشریز کون بنتے ہیں؟
ان الزامات میں ایک اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پر انتظامی اختیارات کی آڑ میں عدالتی رائے پر حاوی ہونے کی طرف اشارہ ہے جو دباؤ کا حصہ بن کر فیصلوں کو متاثر کرنے کی ایک مثال ہے جس کا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ کے تحت عدالت عظمیٰ میں حل تلاش کیا گیا۔ اسی طرح کی اصلاحات کا اطلاق ہائی کورٹس پر بھی ہونا چاہیے تاکہ انصاف کو شفاف اور یقینی بنایا جا سکے۔ اختیارات سے صحیح اور جائز فائدے اٹھانے کے لئے اخلاقیات کا گہرا تعلق ہوتا ہے اور جہاں اخلاقیات کمزور ہوں وہاں اختیارات بے لگام ہو جاتے ہیں اور پھر قانونی اصلاحات کے ذریعے سے بہتری کی کوشش کرنی پڑتی ہے۔
اس صورت حال کا حل دخل اندازی کرنے والوں کی جوابدہی کے ساتھ ساتھ اس بات میں بھی ہے کہ ججز کی تعیناتیوں میں نا صرف جج کی تعلیم و تجربے کو دیکھا جائے بلکہ ایسی شخصیات کو لیا جائے جن کے اندر اس عہدے اور منصب کی خواہش نہ ہو اور وہ اعلیٰ اخلاقیات کے مالک ہوں تاکہ اگر وہ دباؤ برداشت نہ کر سکیں تو کم از کم اپنے عہدے سے استعفیٰ دے جائیں لیکن نا انصافی کا حصہ تو نہ بنیں۔ جب ججز خوف خدا کے تحت اپنے فیصلوں پر اپنے آپ کو خدا کے حضور جوابدہ سمجھنے والے ہوں گے تو یہ شکایات خود بخود ہی ختم ہو جائیں گی۔ جس طرح جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اگر ماحول سے مدد نہیں ملی تو مشکلات بھی جھیلیں مگر کم از کم کسی کے ساتھ نا انصافی کا حصہ تو نہیں بنے۔ لیکن ماضی کے واقعات پر استدلال کر کے سبھی ججز کو الزامات کا نشانہ بنا دینا بھی جائز نہیں۔ اس لیے بغیر شواہد کے الزامات کا بھی سلسلہ بند ہونا چاہیے اور یہ سب شفاف تحقیقات کے بعد ہی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ ہر کسی کو خاص طور پر میڈیا کو ذمہ دارانہ رویے کا مظاہرہ کرنا چاہیے، اداروں کے سربراہان ہر ایک کے الزام پر وضاحت تو جاری نہیں کر سکتے۔
اگر اس دباؤ کو وسیع منظرنامے میں دیکھا جائے تو یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ حکومت میں یا عدلیہ میں موجود لوگ جو اپنے ہی آئینی رتبے اور عہدے کے ماتحت سے ڈر کر انصاف نہ دے سکیں یا جوابدہی کا عمل یقینی نہ بنا سکیں تو ان پر ایک خود مختار جمہوری ریاست کے انتظامات محفوظ ہاتھوں میں ہونے کا اعتماد کیسے کیا جا سکتا ہے؟ اسی طرح ہمارے معززین جو طاقت کے نشے میں من مانیاں کرتے ہوئے ہر حد کراس کر جاتے ہیں ان کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حالات کی سنگینی کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ حب الوطنی اور ریاست سے وفا کا یہ بھی تقاضا ہے کہ ریاست کے معاملات کو چلانے کا معیار جو آئین نے متعین کیا ہوا ہے اس کو معتبر سمجھا جائے اور ریاست کے وسائل کو عوام اور ریاست کی امانت سمجھتے ہوئے اپنی آئینی ذمہ داریاں نبھانے کے لئے استعمال کیا جائے، نا کہ اپنے ذاتی مفادات اور خواہشات کی تکمیل کے لئے اور ایسا کرنے والوں کی زندگیاں مکافات عمل کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ اگر ہم اب بھی اس سے سبق حاصل نہیں کریں گے تو پھر قدرت کا اصلاح کا عمل ہر کسی کے لئے تکلیف دہ ہو گا اور اس کا دکھ صرف ہمیں ہی نہیں، اگلی نسلوں کو بھی بھگتنا پڑے گا۔