میاں جہانگیر ایڈووکیٹ جنہیں ضیاء الحق نے 10 سال جیل میں رکھا

میاں جہانگیر کی جیل بتیی پر کام چلتا رہا۔ پیپلز پارٹی سے ان کا تعلق اور ذوالفقار علی بھٹو سے ان کا عشق اس آپ بیتی میں حرف بہ حرف موجود ہے۔ ایک پرانی سی لال رنگ کی آلٹو کار میں لاہور شہر کی سڑکوں پر گھومتا وہ درویش پتہ نہیں کتنے طاقتور حکمرانوں سے رابطے میں تھا۔

میاں جہانگیر ایڈووکیٹ جنہیں ضیاء الحق نے 10 سال جیل میں رکھا

یہ کوئی 2007 سے 2008 کا دور تھا جب میں جمہوری پبلشنگ ہاؤس کے لیے کام کیا کرتا تھا۔ تب پاکستان کی سیاسی صورت حال مخدوش تھی۔ بے نظیر بھٹو کے المناک قتل کے بعد سوگ کی سی کیفیت تھی۔ مجھے ایک دن ایک سیاسی کردار سے ملنے کا موقع مل گیا اور پھر ملاقاتوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا جو تب تک چلتا رہا جب تک وہ حیات رہے۔

میاں جہانگیر ایڈووکیٹ پاکستانی سیاست کا ایک اساطیری کردار تھے۔ ان سے مل کے اور باتیں کر کے ہمیشہ ایسا لگا کہ آپ ہر روز کسی نئے آدمی سے مل رہے ہیں۔ بظاہر دیکھنے میں خاموش طبع، ہر ایک سے انکساری سے ملنا، سب کی بات سن لینا مگر جب اپنا مدعا بیان کرنا تو بھرپور دلیلوں کے ساتھ بات کرنا اور مخاطب بحث کو چونکنے پر مجبور کر دینا۔

مجھے ایک دن فرخ سہیل گوئندی روح رواں جمہوری پبلشنگ ہاؤس نے کہا کہ میاں جہانگیر ایڈووکیٹ کو جانتے ہو، میں نے نفی میں سر ہلا دیا۔ کہنے لگے یہ وہ سیاسی کارکن ہے جنہوں نے جنرل ضیا الحق کی آمریت کا جواں مردی سے مقابلہ کیا، 10 سال تک جیل میں قید رہے، اب اپنی جیل کی روداد لکھنا چاہتے ہیں، اس سلسلے میں ان سے مل لوں۔ میں مقررہ وقت پر لاہور ہائی کورٹ کے برگد کے درخت کے نیچے پہنچ گیا۔ ان کو موبائل پر کال کی تو وہ وہاں ہی موجود تھے۔ چائے کے کپ پر گپ شپ شروع ہوئی۔ پھر ہم اٹھ کر اٹارنی جنرل آفس بیٹھ گئے۔

پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہو چکی تھی۔ لطیف کھوسہ اٹارنی جنرل تھے مگر لاہور ہائی کورٹ والے آفس میں ایسے لگتا تھا کہ میاں جہانگیر ہی اٹارنی جنرل ہیں۔ وہاں انہوں نے پھر چائے منگوائی۔ کہنے لگے میں نے جیل میں دو کام کیے تھے، ایک انگریزی کتاب history of world کا اردو ترجمہ کیا اور دوسرا اپنی خود نوشت لکھنی شروع کی تھی۔ آپ بتائیں کہ آپ اس سلسلے میں کیا مدد کر سکتے ہیں۔ میں آپ کو اس کام کا معقول معاوضہ بھی دوں گا مگر یہ بات آپ کے اور میرے درمیان رہے گی، آپ جس اشاعتی گھر سے وابستہ ہیں وہاں جو تنخواہ ملتی ہے وہ آپ کا اور ان کا معاملہ ہے۔

میں ان کی بات سن کر بہت حیران ہوا کہ کیسا درویش آدمی ہے، مجھے معاوضہ بھی دے رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ اپنے ادارے سے تنخواہ تمہارا الگ معاملہ ہے۔ خیر میں نے ان کو بتایا کہ میں بنیادی طور صحافی، افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار ہوں۔ تب میرے افسانوں کی پہلی کتاب 'کون لوگ' شائع ہوئی تھی اور ریڈیو پاکستان لاہور کے لیے دو ڈرامے بھی لکھے تھے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

بہرحال پھر ملاقاتوں کا طویل سلسلہ چل پڑا۔ کبھی ان کے گھر، کبھی لاہور ہائی کورٹ میں، کبھی ان کے کسی دوست کے دفتر میں۔ ایک بار گورنر ہاؤس میں مجھے ساتھ لے گئے جہاں سلمان تاثیر ان کے منتظر تھے۔ انہوں نے میرا سلمان تاثیر سے تعارف کرایا۔ میں ان دنوں ان کے اخبار روزنامہ 'آج کل' سے بھی وابستہ تھا۔ ادارتی صحفہ پر میرا کالم ہفتے میں دو بار شائع ہوتا۔ سلمان تاثیر میرا نام سن کر چونک پڑے۔ کہنے لگے، یار تم روشنائی کے عنوان سے آج کل میں کالم لکھتے ہو۔ میں نے ہاں میں سر ہلایا۔ سردیوں کی دوپہر تھی۔ گورنر ہاؤس کے لان میں ہم تینوں مالٹے کھانے لگے۔

سلمان تاثیر نے پوچھا، یار جہانگیر کیا کام تھا؟ اگلا لمحہ میرے لیے حیران کن تھا کہ یہ درویش میاں جہانگیر کس کام کے لئے گورنر پنجاب کے پاس آیا ہو گا۔ کہنے لگے لاہور ہائی کورٹ کے سینٹری سٹاف کی تنخواہ لیٹ ہے اور کرسمس قریب ہے، آپ اپنے صوابدیدی اختیارات کا استعمال کر کے تنخواہ جاری کرا دیں۔ اس پر سلمان تاثیر نے فوراً اپنے سیکرٹری کو احکامات جاری کر دیے۔

میاں جہانگیر کی جیل بتیی پر کام چلتا رہا۔ پیپلز پارٹی سے ان کا تعلق اور ذوالفقار علی بھٹو سے ان کا عشق اس آپ بیتی میں حرف بہ حرف موجود ہے۔ ایک پرانی سی لال رنگ کی آلٹو کار میں لاہور شہر کی سڑکوں پر گھومتا وہ درویش پتہ نہیں کتنے طاقتور حکمرانوں سے رابطے میں تھا۔ ایک دن میں ان کے ساتھ ان کے گھر بیٹھا تھا۔ کہنے لگے، یار بندہ ٹیپ پر ڈیک پر اپنی پسند کے گانے سن لیتا ہے مگر جب میں سویرے سویرے آل انڈیا ریڈیو پر فرمائشی گانوں کا پروگرام سنتا ہوں تو اچانک کوئی پسند کا گانا آ جاتا ہے تو بہت مزہ آتا ہے۔

ایسے ہی ایک دن کسی بہت امیر دوست کے دفتر میں بیٹھے ہم دونوں آپ بیتی پر کام کر رہے تھے۔ کہنے لگے، چھوڑو یار یہ سیاسی باتیں، دونوں مل کر ڈرامے لکھتے ہیں۔ میں تمہیں کچھ کہانیاں سناؤں گا، تم ڈرامائی تشکیل کرنا۔ یوں وقت گزرتا رہا۔ ایک دن میرے پاس ٹراٹسکی کی کتاب 'انقلاب سے غداری' دیکھ کر بولے، مجھے یہ کتاب بہت عزیز ہے، بستر پر میرے سرہانے پڑی ہوتی ہے۔

میاں جہانگیر کچھ دنوں سے کسی سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے صرف ہاں ہاں کرتے تھے۔ میں نے پوچھا کون ہے؟ مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگے، صدر پاکستان آصف علی زرداری ہیں۔ کہتے ہیں سینیٹ الیکشن کی تیاری کرو، تم پنجاب اسمبلی سے سینیٹ الیکشن میں ہمارے امیدوار ہو گے۔ میں چونک پڑا، کہا آپ زرداری صاحب کے اتنے قریب ہیں۔ کہنے لگے زرداری یار باش آدمی ہے، جب جیل میں تھا تب اس سے تعلق بن گیا تھا۔ اس کی مہربانی ہے کہ اس نے یاد رکھا۔

وزیر قانون فاروق ایچ نائیک جنہوں نے میاں جہانگیر کے کہنے پر پیپلز لارئرز فورم کے بہت سے نوجوان وکلا کو مختلف اداروں میں لاء آفیسر لگوایا تھا، وہ ان سے مسلسل رابطے میں تھے۔ ان کے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لیے فیس سمیت سب کچھ ان کے ذمے تھا۔ پھر اچانک میاں جہانگیر ایڈووکیٹ کی موت کی خبر آ گئی۔ میں ان کی تدفین پر پچھلی قطار میں کھڑا سوچ رہا تھا کہ ان کی آپ بیتی مکمل ہو سکی اور نا ہی وہ سینیٹر بن سکے۔

اس کے بعد کچھ عرصہ تک ان کے بیٹے یاسر سے رابطے میں رہا جن کی والدہ برطانیہ میں مقیم تھیں۔ وفاقی وزیر فاروق ایچ نائیک نے صدر پاکستان آصف علی زرداری کے کہنے پر یاسر کو پی آئی اے میں نوکری دلوا دی مگر افسوس اس بات کا رہے گا کہ میاں جہانگیر ایڈووکیٹ کی خودنوشت ادھوری رہی۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔