اڑان ایسی اڑی کہ تھم گئے بادل رک گیا آسماں

اڑان ایسی اڑی کہ تھم گئے بادل رک گیا آسماں
میں نے اکثر تحریریں سفر میں ہی لکھی ہیں، ابھی بھی اچانک دوران ہوائی سفر باہر نظر پڑی تو ایسے لگا جیسے میری اڑان بھرنے کی دیر تھی یہاں تو سب تھم سا گیاہے۔ دن میں جن بادلوں کے سائے کے پیچھے پیچھے ہم بھاگتے ہیں یہاں ساکن کھڑے ہیں، ہوا کے زور سے جہاں ہم اپنے رخ بدل لیا کرتے ہیں یہاں وہ بھی تھم سی گئی ہیں، یہاں تو سب کچھ رکا ہوا اور شاید بس میں ہی سفر کی طرف گامزن ہوں۔

اگرچہ یہ میری زندگی کا انتہائی اہم سفر ہے کیونکہ میں اردو اور انگریزی دونوں والا سفر ایک ساتھ کر رہی ہوں۔ اپنوں کی خاطر اپنوں کی خوشی کیلئے اس سفر پر نکلی ہوں لیکن اس میں بہت سے اپنے شاید مجھ سے بہت دور بھی ہو گئے ہیں کوئی بات نہیں اس امید کے ساتھ کہ زندگی نے ساتھ دیا تو واپس آکر منا لوں گی اس سفر پر نکل تو پڑی ہوں لیکن دل کہیں نا کہیں بہت اداس بھی ہے، نا جانے مجھے اتنی مہلت بھی ملے گی کہہ نہیں ، خیر اللہ نے جہاں یہاں تک ساتھ دیا تو میرے حق میں آگے بھی جو بھی ہوگا میرا رب میرے ساتھ ہی ہے تو سب بہتر ہی ہوگا، پھر چاہئے ساری دنیا ہی مجھے کیوں نا چھوڑ دے۔

چلیں چھوڑیں سب باتیں 6 سال بعد اس شہر جا رہی ہوں جہاں پر کورونا وائرس بقول حکمران اور میڈیا عروج پر ہے، یہاں سیاسی گرماگرمی بھی عروج پر ہے اور یہ شہر ویسے اکثر رہتا بھی گرم ہی ہے، جہاں گرمی بندے میں مر جاتے ہیں، جہاں بارش ذیادہ ہو تو پانی بھی ذیادہ ہو جاتا ہے وہاں اب کورونا بھی تگنی کا ناچ دیکھا رہا۔ اللہ پاک سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔آمین

اب آپ سب کہہ رہے ہوں گے کہ کورونا کے ان حالات میں ایسی کیا عافت آن پڑی تھی جو میں یہاں جا رہی تو جناب سب کے اپنے اپنے مسائل ہوتے ہیں اب سب آپ کو بتا دیں کیا۔ خیر میں کورونا متاثرین میں سے ہوں اور ابھی مکمل ویکسینیٹیڈ بھی ہوں، ماسک کا بھی باقاعدگی سے استعمال کرتی ہوں اور بہت زیادہ سوشل ہونے کے باوجود آج کل فل ٹائم سوشل ڈیسٹنگ سے چل رہی ہوں۔ اس لیے پریشان نا ہوں، اپنا اور اپنوں کا خیال رکھیں، احتیاطی تدابیر پر عمل کریں اور سکون سے اپنی زندگی گزاریں۔ وگرنہ اس وقت جو حالات بادل اور تھمی ہوئی ہوا کے ہیں ویسے ہی آپ کی بھی ہو سکتے ہیں، کورونا کو سیریس نا لینے والوں کی بھی سانسیں رک سکتی ہیں اور زندگی تھم سکتی ہے۔

لو جی اتنی سی دیر میں باہر اندھیرا بھی چھا گیا، بادلوں سے بھی رہا نا گیا اپنا ساکن رہنا برداشت نا ہوا تو اندھیرے کا سہارا لے لیا کہ کوئی دیکھ نا سکے، کوئی بات نہیں آخر کب تک اندھیرے کے بعد اُجالا آتا ہے اور پھر سب کو سب دکھتا ہے سب سے باخبر ہوجاتے ہیں۔ لیکن جن کے دلوں میں اندھیرے چھا جائیں ان کے لیے تو کہا جاتا ہے نا کہ مہریں لگ جاتی ہیں ان کے دلوں میں پھر صحیح غلط کا فرق بھی ان کیلئے ختم ہوجاتا ہے۔ آج کل ہماری کل آبادی کا 80% حصہ شاید انہی لوگوں پر منحصر ہے یہ میں نہیں موجودہ حالات و واقعات کہہ رہے ہیں۔

جس تیزی سے اندھیرا چھایا اس سے بھی ذیادہ تیزی سے ہمارے ہاں قتل و غارت کا بازار گرم ہو رہا ہے، آئے روز کہیں نا کہیں کسی کی سانسیں تھم رہی ہیں، کوئی نا کوئی زیادتی اور درندگی کا شکار ہو رہا ہے زندگیاں تو ایسے ختم کی جارہی ہیں جیسے کپاس کی فصل کو سپرے مار کر کیڑوں کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ یہ کیا بیہودگی ہے انسانوں کو کیڑوں سے تشبہ دے رہی ہے تو جناب زندگیاں اس سے بھی بدتر طریقے سے روندی جارہی ہیں اور کوئی لقب آپ کے ذہن میں آئے تو ضرور بتائیے گا۔

ارے بھئی کوئی خوف خدا کھاؤ، پہلے ہی کورونا جیسا عذاب آپ پر نازل ہوا پڑا ہے اس سے جان نہیں چھوٹتی دوسری طرف ہمارے ہاں ہر دوسرے دن کوئی نا کوئی نئی قیامت ٹوٹتی ہے۔ اتنی ٹوکسیٹ، ذہنی انتشار کا شکار سوسائٹی پہلے تو نہیں تھی اب ایسا کیا ہوگیا ہے؟ اسی خدوخال کی بچیاں، لڑکیاں اور عورتیں ہیں، وہی پردے میں بھی ہیں، فیشن میں بھی ہیں، اب ایسا کیا نیا آگیا ہے کہ ان کو نوچ کھانے کی حوس شدت اختیار کرگئی ہے سب چھوڑو قبر تک میں جا کر جو حوس پوری کرکے تسکین لیتے ہو اس سب میں کیا ملتا ہے؟  یہ کیسی ذہنی کیفیت ہوتی ہے کہ جو قبر تک لے جاتی ہے مردے تک کو نہیں بخشا جاتا۔

ان سب کے بعد وجود دنیا تو چل رہی ہے لیکن کئی زندگیاں ضرور رک گئی ہیں، لیکن آخر اور کب تک؟ انسانیت کا قتل کرنے والوں کے ساتھ کب تک انسانوں جیسا سلوک کیا جاتا رہے گا؟ انسانیت کو مارنے والا کبھی انسان نہیں ہوسکتا، اس درندے کو اس کی درندگی کی سزا بھی ویسی ہی ملنی چاہیے، نامرد بنا کر ان کی مردانگی کو مارا جائے اور پھر سرعام پھانسی دے کر چوراہے پر ان کی لاشوں کو لٹکا دینا چاہیئے تا کہ چیل کوے انہیں نوچ نوچ کھائیں یہ خبیث تو دفنانے کے بھی لائق نہیں ہیں۔ ایسے درندوں کے جنازوں پڑھانے والوں پر بھی فتوے لگا دینے چاہیئں۔ جب تک ایسے سخت اقدامات نہیں اٹھائیں جائیں گے، تب تک یہ سب چلتا رہے گا۔ اس حوس کی کالے بھیڑیوں کو روکنا ہے تو سخت سے سخت قوانین اور سزاؤں کو نافذ کرنا ہوگا۔

میرا یہ سفر تو ختم ہونے والا ہے لیکن زندگیوں کو کچلنے کے اس سلسلے کو ختم کرنے کیلئے سب کو مل کر اس کیلئے آواز اٹھانی ہونی گی۔ اور تب تک خاموش نہیں بیٹھنا جب تک ان سب کو ان کے کیفرکردار تک نہیں پہنچا لیتے۔ ہمیں اپنے زندگی کے ان اندھیروں سے باہر نکنا ہے اور آگے بڑھنا ہے، آپ نے اپنی اڑان  میں بادلوں اور ہواؤں کی خاموشی کا جواب دینا ہے ان کی چپ نہیں سادھنی۔

میں چلی واپس زمین پر، یہ بادل اور ہوائیں تو یہاں نہیں چلنے والے، ہم اپنی جگہ واپس چلتے ہیں وہی جہاں کر دور کے ڈھول سہانے دیکھتے ہیں۔

فی امان اللہ

 

مصنفہ سینیئر صحافی ہیں اور ملک کے متعدد ٹی وی چینلز پر کام کر چکی ہیں۔ انٹرنیٹ پر ان کے مختلف ویب سائٹس پر مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔