اس ملک کی تقدیر کا مورخ نجانے کیوں گیم آف تھرونز کے جارج مارٹنکی طرح ایک کردار کی تخلیق کرتا ہے، اس کو عوام میں مقبولیت دلواتا ہے اور پھر کہانی کو ایک دلچسپ موڑ پر لا کر اس کردار کی زندگی کا اختتام کر دیتا ہے۔
تاریخ انسانی اقوام عالم کے عروج وزوال کی داستان ہے۔ ہر قوم گزرتے وقت کے ساتھ تغیر کی مختلف منازل طے کرتی ہے۔ وطن عزیز کا گذشتہ نصف صدی کا قصہ قدرے مختلف ہے۔ ایک ثبات ہے جس میں تغیر کی بجائے تخلیقی اور ترویجی صلاحیتوں سے عاری ایک جمود ہے اور بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ کچھ نیا نہیں ہے۔
آج سے نصف صدی قبل ایک پاکستانی وزیر اعظم ایک عظیم اجتماع کے سامنے کچھ یوں مخاطب ہوئے " میرے خلاف سازش ہوئی ہے۔ یہ کوئی عوام کی سازش نہیں ہے۔ ایک مغربی طاقت کی سازش ہے۔ میں آپ کو بتائوں گا وہ کون ہے۔ کیوں نہ بتائوں آپ میری قوم ہیں۔ یہ وہ طاقت ہے جو سامراج ہے۔ جو سرمایہ دارانہ نظام چاہتے ہیں۔ جو رجعت پسندانہ نظام چاہتے ہیں۔"
یہ تقریر جناب ذوالفقار علی بھٹو کی ہ ۔ ایک سازش کا ذکر اور اشارہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی جانب۔ آج پھر ایک پاکستانی وزی اعظم بعینہ اسی بات کو دہرا رہا ہے اور ہم سن رہے ہیں۔
جب بھٹو صاحب کو پھانسی دی جا رہی تھی تو صحافی حلقوں کو اس کے وقت اور دن کی اطلاع نہیں دی گئ۔ جس صبح سابقہ وزیر اعظم تختہ دار پر اپنی آخری سانس لے چکے روزنامہ نوائے وقت کی شہ سرخی تھی۔ "پھانسی کسی وقت بھی دی جا سکتی ہے" ۔
غور طلب بات مگر روزنامہ کے اندرونی صفحات پر تھی جس میں ایک پورا صفحہ اس تجزیے کی نظر کر دیا گیا جس میں بھٹو صاحب کا موازنہ ایڈولف ہٹلر سے کیا گیا تھا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ بھٹو صاحب کا طرز سیاست اور ان کی شخصیت ہوبہو ہٹلر کی نہج پر تھی
پچاس سال بعد اسی طرح ایک مستند صحافی ہماری ٹی وی سکرین پر چلا چلا کر عمران خان کو ہٹلر ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آئے۔ تخلیقی صلاحیتوں کا انحطاط ایک جمود جیسے کچھ بھی نہ بدلہ ہو۔ کہانی بھی وہی اور قلمکار بھی وہی
بھٹو صاحب ایک بے حد مقبول رہنما تھے۔ نوے کے اواخر کے نواز شریف کی طرح۔ جیسے دور حاضر میں عمران خان۔ نجانے کیوں اسلامی جمہوریہ کے جمہور جب کسی رہنما کو اپنے انتخاب سے معتبر کریں۔ وہ قتل، اقامہ اور ممنوعہ عطیات جیسے جرائم کا ارتکاب شروع کر دیتے ہیں۔ اس ملک کی تقدیر کا مورخ نجانے کیوں گیم آف تھرونز کے جارج مارٹنکی طرح ایک کردار کی تخلیق کرتا ہے، اس کو عوام میں مقبولیت دلواتا ہے اور پھر کہانی کو ایک دلچسپ موڑ پر لا کر اس کردار کی زندگی کا اختتام کر دیتا ہے۔
ایک ہی کہانی ایک ہی ترتیب سے بارہا سنتے پاکستان کے لوگ اکتاتے بھی نہیں ہیں۔ گردش دوراں اور غم معاش جاری رہتا ہے، مگر ایک جمود سا ہے۔ کاش کوئی ارتقا کی صورت ہوتی۔