'دہشت گردی ختم کرنی ہے تو پی ٹی ایم کو آزاد کرنا پڑے گا'

'دہشت گردی ختم کرنی ہے تو پی ٹی ایم کو آزاد کرنا پڑے گا'
اسٹیبلشمنٹ کو اگر احساس ہو گیا ہے کہ اسے سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہئیے تو یہ بہت خوش آئند بات ہے۔ فوج کو ایک اور بات کا بھی احساس ہو جانا چاہئیے کہ وہ دہشت گرد تو ختم کر سکتی ہے مگر دہشت گردی ختم کرنے کی نہ ان کی صلاحیت ہے اور نہ انہیں تربیت ملتی ہے۔ میری رائے ہے کہ دہشت گردی کو ختم کرنا ہے تو پشتون تحفظ موومنٹ کو آزاد کر دیں۔ وہ ہمارے اپنے لوگ ہیں۔ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے اتحادی ہیں۔ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے اتحادی تھے اور اب وہ سنگین حملے کر رہے ہیں اسٹیبلشمنٹ پر جبکہ دوسری جانب پی ٹی ایم کی لیڈرشپ کو قید میں رکھا ہوا ہے۔ یہ کہنا ہے بیرسٹر اویس بابر کا۔

ماحول نیوٹرل ہو رہا ہے

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے اویس بابر کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ اگر یہ کہہ رہی ہے کہ انہیں احساس ہو گیا ہے اور وہ نیوٹرل ہو رہے ہیں یا ہو جائیں گے تو یہ بھی بہت بڑی بات ہے۔ عمران خان کی آڈیو لیکس کے بعد ان کے حمایتیوں کا جوش و خروش بھی کم ہوا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ آرمی نیوٹرل ہو نہ ہو، ماحول ضرور آہستہ آہستہ نیوٹرل ہو رہا ہے۔

عمران خان نا اہل ہو جائیں گے

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے 2017 کے فیصلے میں جب نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا تو واضح طور پر انہیں پارٹی کی سربراہی سے بھی ہٹا دیا تھا اور الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے اسی فیصلے کی روشنی میں اپیل کر رہا ہے۔ 2017 کے الیکشن ایکٹ میں الیکشن کمیشن کو ہائی کورٹ کے مساوی اختیارات دیے گئے ہیں تو توہین الیکشن کمیشن والے کیس میں اگر ٹرائل شروع کرنا پڑتا ہے تو الیکشن کمیشن خود بھی یہ شروع کرنے کا مجاز ہے۔

جنرل باجوہ عمران خان کو قتل کروانا چاہتے تھے؟

تحقیقاتی صحافی اعزاز سید نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے بطور آرمی چیف جنرل باجوہ کا رول اگرچہ آئیڈیل نہیں رہا لیکن میرا نہیں خیال عمران خان کو قتل کرنے والے الزام میں کوئی سچائی ہے۔ عمران کے بیان کے بعد ان سے ثبوت مانگنے چاہئیں کیونکہ عمران خان اس سے پہلے کئی لوگوں پر الزام لگا کے اپنے بیان سے مکر چکے ہیں۔ عمران کی موجودہ سٹریٹیجی یہ ہے کہ اسٹیبشلمنٹ کو ڈرا کر بیک فٹ پر جانے پر مجبور کیا جائے۔ اسی لئے وہ اب کسی کا نام نہیں لے رہے اور دبے الفاظ میں تنقید کر رہے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے نام لینے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا اور ایسا کرنے سے عمران کے خلاف کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔

طالبان تحریک انصاف کو دھمکی کیوں نہیں دیتے؟

انہوں نے کہا کہ عمران خان نئے آرمی چیف کو پیغام دے رہے ہیں کہ میں پراپیگنڈہ کر سکتا ہوں۔ ایک جانب وہ اسٹیبلشمنٹ سے کہہ رہے ہیں کہ پیچھے چلے جائیں اور دوسری جانب انہیں اپنی مدد کو بھی بلا رہے ہیں۔ تحریک طالبان نے جن جماعتوں کو دھمکی دی ہے ان میں پی ٹی آئی کا نام کیوں نہیں شامل ہوا، یہ بھی سوچنے والی بات ہے۔ 2013 کے انتخابات سے پہلے بھی پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے الیکشن مہم چلانے پر پابندی تھی مگر پی ٹی آئی آزادی سے جلسے کر رہی تھی۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ دہشت گردی کی موجودہ لہر کے دوران خیبر پختونخوا حکومت کا کردار بھی اچھا نہیں ہے۔

مزید ٹیکس لگانے پڑیں گے

سینئر صحافی مہتاب حیدر کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی والے یہ نہیں بتاتے کہ وہ خود معیشت کو کہاں چھوڑ کر گئے تھے بلکہ وہ محض پچھلے چھ سے آٹھ ماہ کی بات کرتے ہیں۔ معاشی مشکلات وہاں سے شروع ہوئیں جب پی ٹی آئی کی حکومت میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات خراب ہوئے اور ایک مشکل پروگرام پی ٹی آئی نے منظور کر لیا۔ اب ہمیں صرف آئی ایم ایف کا پروگرام بچا سکتا ہے لیکن اس کے لئے مزید ٹیکس لگانے پڑیں گے، بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانی پڑیں گی پھر آئی ایم ایف پروگرام شروع ہوگا۔

جنرل باجوہ ایمرجنسی لگانے کی پوزیشن میں ہی نہیں تھے

مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ یہ مسلمہ حقیقت ہے ایکسٹٰنشن والے آرمی چیف بہت کمزور ہوتے ہیں اور جانے والے آرمی چیف اور بھی کمزور ہوتے ہیں وہ نہ ایمرجنسی لگا سکتے ہیں اور نہ مارشل لاء۔ عمران خان کی ایمرجنسی والی بات میں کوئی سچائی نہیں نظر آتی۔

پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ 'خبر سے آگے' ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔