لاہور میں قتل کی ایک اندوہناک واردات سامنے آئی ہے جس میں مدعی ہی قاتل نکلا ہے۔ لاہور کے علاقے لیاقت آباد میں ہوئے اس قتل کی واردات کا اہم پہلو یہ ہے کہ 14 سالہ کمسن بچے کو اسکے خالو نے قتل کیا ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ سنسنی خیز امر یہ کہ اسکا یہ خالو ہی اس کے قتل کے مقدمے کا مدعی بھی تھا۔
یہ واقعہ چند روز قبل پیش آیا۔ جب محمد سلیم جو کہ مالی ہیں اور انکی اہلیہ لوگوں کے گھروں میں ملازمت کرتی ہیں، کے گھر ڈکیتی کی واردات ہوئی۔ اس کے نتیجے میں ڈاکو گھر میں موجود نقدی اور دیگر قیمتی سامان لینے کے ساتھ ساتھ محمد سلیم کے 14 سال کے بیٹے نبیل کا قتل کردیا۔ سلیم اور انکی اہلیہ واردات کے وقت گھر پر موجود نہیں تھے۔ تاہم انکے بیٹے کے ساتھ انکی بیٹی بھی موجود تھی جو اس واقعے میں صحیح سلامت رہی۔
دونوں میاں بیوی کو محلے والوں کے فون سے پتہ چلا کہ انکے بیٹے کا قتل ہوا جس پر وہ جلدی میں گھر پہنچے۔ جہاں انکی بیٹی نے انہیں بتایا کہ بھائی اوپر چھت پر طوطے لینے گیا تھا۔ بی بی سی نے لکھا کہ جب وہ اوپر گئے تو وہاں بیٹے کی گلا کٹی لاش دیکھی جس کی آنکھوں کے نیچے چھریوں کے نشان ہوں گے۔
ڈکیتی میں دو لاکھ روہے سے زائد نقدی، سونا اور دیگر قیمتی سامان اٹھایا گیا تھا۔ بظاہر یہ قتل ڈکیتی کا حصہ تھا اور شروع میں خاندان اور دیگر افراد کو بھی یہی لگا کہ یہ دوران ڈکیتی ایک قتل کی واردات ہے۔ اس کیس میں مدعی قتل ہونے والے بچے کا خالو بنا اور وہ پولیس کے ساتھ تفتیش میں شامل رہا۔ اس نے قتل کے شبے میں علاقے کے جرائم پیشہ شخص سلمان کا نام لیا۔
دوران تفتیش سلمان نے بتایا کہ اسے طیب نامی شخص نے قتل کے لئے پیسے دیئے۔ طیب نے تفتیش کے دوران اپنے چچا زاد بھائی اور بچے کے خالو اور مقدمے کے مدعی کا نام بطور قتل کے ماسٹر مائنڈ کے لیا۔ پولیس نے جب مقدمے کے مدعی سے تفتیش کی تو اسنے اقرار جرم کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اپنی سالی کے تین مرلہ مکان پر قبضہ چاہتا تھا اور اسکے منصوبے کے تحت اسنے انکا بیٹا قتل کیا تا کہ وہ اپنے بیٹے کی شادی اپنی سالی کی بیٹی سے کر کے مکان اسکے نام لگوالے۔