گذشتہ دو سال سے سندھ بدامنی کی آگ میں جل رہا ہے۔ بالخصوص شمالی سندھ کے اضلاع، کشمور، کندھ کوٹ، شکارپور، گھوٹکی، سکھر اور جیکب آباد میں بدامنی عروج پر ہے۔ آئے روز اغوا برائے تاوان اور قتل کے واقعات میڈیا میں رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ بچے، بوڑھے، تاجر، کسان، چوکیدار، مریض، مزدور، عاشق، محبوب حتیٰ کہ عوام کے جان و مال کے محافظ پولیس اہلکار بھی محفوظ نہیں۔ 3 جولائی 2024 کو جب میں لکھ رہا تھا اس وقت خبر آئی کہ کندھ کوٹ کے قریب پولیس پکٹ پر ڈکیتوں کے حملے میں دو پولیس اہلکار مارے گئے۔ یہ صورت حال ہے ضلع کشمور کی۔
رواں ہفتے ضلع کشمور سے تعلق رکھنے والے 3 ہندو نوجوانوں؛ نتیش کمار، سنجے کمار اور نتیش گیہانی کو غوث پور سے کندھ کوٹ جاتے ہوئے کار سمیت اغوا کیا گیا۔ پانچ دن سے شہر بند ہے، ہندو برادری سراپا احتجاج ہے۔ علاقے میں یہ بات زبان زد عام ہے کہ نوجوانوں کی بازیابی کے لیے ڈکیتوں نے تین کروڑ تاوان کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ اس جماعت کے صوبے میں ہو رہا ہے جو گذشتہ 15 سال سے صوبے میں بر سر اقتدار ہے۔ شہری عدم تحفظ کا شکار ہیں، ڈھابوں کی رونق ماند پڑ چکی ہے۔ چائے کی نشست پر راتوں رات بزنس ایمپائر کھڑی کرنے والے نوجوان اب دکھائی نہیں دیتے۔ حکمرانوں کی بدعنوانی، پولیس کی نااہلی اور اولاد کی نافرمانی کا رونا رونے والے بابے اب ڈھابوں کا رخ نہیں کرتے۔ کچی عمر میں پکے وعدے کرنے والے بالی عمر کے عاشقوں کے بغیر سڑکیں سنسان ہیں۔
کتھارسس کے لیے سوشل میڈیا تھا جہاں شہری حکمرانوں کو برا بھلا کہہ کر من کا بوجھ ہلکا کر لیتے تھے۔ لیکن اصل حکمرانوں کو بھلا یہ کہاں راس آنا تھا۔ ملک کے وسیع تر مفاد میں سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے نام پر قوانین بنائے جا رہے ہیں۔ ایکس تک رسائی وی پی این کے بغیر اب ممکن نہیں۔ فیس بک کو اتنا آلودہ بنا دیا گیا ہے کہ وہاں صرف 'طاغوت' اور طاغوتی قوتوں کا شور و غوغا ہے۔ اصل مسائل ریٹنگ کی دوڑ میں کہیں پیچھے چلے گئے ہیں۔
اپنے ہندو دوستوں سے بات کرو تو شکایت بھرے لہجے میں کہتے ہیں کہ یار ہم بھی اس ملک کے شہری ہیں، حب الوطنی میں بھی کسی صورت آپ سے کم نہیں، امن سے رہتے ہیں اور ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں، پھر کیوں ہمیں دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے؟
گھر سے باہر قدم رکھنے سے قبل دس مرتبہ سوچنا پڑتا ہے کہ کہیں آزاد فضا میں سانس لینے کی پاداش میں اغوا نہ کر لیے جائیں۔ ہمیں سندھ کو خیرباد کہنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ حالات اتنے تنگ کر دیے گئے ہیں کہ اپنی زمین، اپنے دوستوں سے صدیوں پرانا تعلق نبھانا مشکل ہو گیا ہے۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
بہاولپور سے تعلق رکھنے والا ایک نائی اپنا دوست ہے جو ناصرف بال بناتا ہے بلکہ قصے کہانیاں بھی سناتا ہے۔ ایک دن اپنی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ حالات کو بہتر بنانے کے لیے نکلا تو کراچی نے اپنی آغوش میں لیا۔ سوچا تھا کچھ سال دل لگا کر محنت مزدوری سے چار پیسے کما کر ادھورے خوابوں کو پورا کروں گا، کچے مکان کو پکے سے بدلوں گا، گاؤں کی دنیا کو پھر سے آباد کرنے کے لیے واپس بہاولپور جا کر اپنا سیلون بناؤں گا۔ خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے جستجو کرتا رہا۔ خواہشوں کے کینوس پر حقیقی رنگ بھرتا رہا اور مجھے یہ بھی ہوش نہ رہا کہ واپسی کے دن مہینوں اور سالوں میں بدل کر میری عمر کی طرح بڑھتے رہے۔ اس پورے عرصے کے دوران حالات بھی کچھ ایسے رہے کہ ہمیشہ واپسی کی راہ میں حائل ہوتے رہے۔
وہ نائی جوانی کے 20 سال کراچی میں رہنے کے باوجود اپنے شہر، اپنے گھر، اپنے گاؤں کو یاد کرتا ہے اور وہاں واپس جانا چاہتا ہے۔
سوچیں کشمور، کندھ کوٹ، جیکب آباد اور گھوٹکی سے ہجرت کرنے والے ہندوؤں کے دل پر کیا بیتتی ہو گی؟ کیا انہیں بدامنی کی وجہ سے چھوڑا ہوا اپنا گھر، اپنے رشتے دار یاد نہیں آتے ہوں گے؟
بے بسی کی تصویر بنی، اپنے بچوں کی بازیابی کے لیے احتجاج کرتی ماؤں کی آہ و فریاد سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے، جب وہ یہ کہتی ہیں کہ کیوں ہمیں سندھ سے ہجرت کرنے پر مجبور کر رہے ہو؟ کیوں عمر کے آخری حصے میں ہمیں دربدر کرنے پر تُلے ہو؟
سچ یہ ہے کہ سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے یا پھر آسائشوں کی تلاش میں ہم جس گھر کو پیچھے چھوڑ چکے ہوتے ہیں وہ تمام عمر ہماری یادوں میں رہتا ہے۔ جسم کا روح سے رشتہ ٹوٹنے اور آخری سانس کے اکھڑنے تک دل میں ایک آس، ایک امید سی رہتی ہے کہ ایک دن ضرور ہم اپنے وطن، اپنے شہر، اپنے گاؤں اپنے گھر لوٹیں گے۔ لیکن بہت سوں کی یہ آس، آس ہی رہ جاتی ہے۔
واپسی کا سفر بھی ان کے لیے ممکن ہے جو اپنی مرضی سے کہیں جا بسیں۔ مگر سندھ سے بھارت ہجرت کرنے والے ہندوؤں کے ایسے نصیب کہاں؟ وہاں جائیں تو اپنے ہم مذہب انہیں مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور یہاں ہم نے ان کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔