سندھ حکومت کی کرونا کے حوالے سے بہترین پرفارمنس کے پیچھے طاقتور ترین ادارے کی مدد تھی؟

سندھ حکومت کی کرونا کے حوالے سے بہترین پرفارمنس کے پیچھے طاقتور ترین ادارے کی مدد تھی؟
 

جب سے کرونا کی وبا نے پاکستان میں اپنے پنجے گاڑھے ہیں ملک میں کرونا کے خلاف کارکردگی پر سیاسی مقابلہ جاری ہے۔ اس حوالے سے حیران کن طور پر پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے وزیراعلیٰ  مراد علی شاہ کی زیر قیادت ایسی پرفارمنس دی جس پر سب کی طرف سے داد دی گئی  اور یہ اپنے حق میں  ایک سیاسی بیانیہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ تاہم اس کے بعد  سندھ حکومت کی جانب سے بار ہا اس بارے میں اظہار کیا گیا کہ کرونا وائرس کے حوالے سے انکی کوششوں اور کاوشوں کو منظم طریقے سے وفاق کی جانب سے سبوتاژ کیا گیا۔

اب ملک کے معروف صحافی سہیل وڑائچ نے بی بی سی کے لئے لکھے گئے اپنے کالم سندھی چینی بمقابلہ وفاقی چینی میں اسی معاملے پر روشنی ڈالتے ہوئے مزید انکشافات کئے ہیں۔ 

اسلام آباد کی سازشی راہداریوں میں یہ سرگوشیاں بھی سننے میں آ رہی ہیں کہ سندھ میں کرونا کے حوالے سے بہترین انتظامات اور پھر میڈیا میں اسکے مثبت تاثر کو پیدا کرنے میں سندھ کے طاقتور ادارے کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔ اسلام آباد کی سیاسی حکومت کو اس حوالے سے معلومات ملیں تو پھر اس کا توڑ کرنے کی کوشش کی گئی۔

اس حوالے سے کئی سازشی کہانیاں گردش میں ہیں۔ پہلی کہانی تو یہ ہے سندھ نے کرونا کے معاملہ میں جو اچھا امیج بنایا ہے اس کا توڑ کیا جائے۔ سندھ حکومت کے خلاف الزامات میں اصل ٹارگٹ اومنی گروپ یا آصف علی زرداری ہیں۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آصف زرداری کی شدید بیماری اور موت کی افواہیں پھیلانے کا مقصد یہ ہے کہ زرداری اشتعال میں آ کر یا رد عمل دکھا کر کسی سیاسی سرگرمی میں شریک ہوں اور یوں ان کی گرفتاری کا جواز بن جائے جبکہ دوسری طرف آصف علی زرداری بھی سیاسی داؤ پیچ کے ماہر ہیں وہ نہ تو اشتعال میں آرہے ہیں اور نہ ہی رد عمل دکھانے کو تیار ہیں۔انہیں علم ہے کہ ابھی دو تین ماہ سیاست میں کسی تبدیلی کا امکان نہیں، اس لیے پس منظر میں رہنا ہی فائدہ مند ہے۔

سہیل وڑائچ لکھتے ہیں کہ چینی سکینڈل پر سندھ حکومت اور وفاق میں محازآرائی کو اس پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت اور سندھ کی انصافی قیادت کو علم ہے کہ صوبہ سندھ میں سیاسی تبدیلی لانا بہت مشکل ہے۔ تبدیلی تبھی ممکن ہے کہ مقتدر قوتیں آئین اور قانون کی حدود پار کر کے جام صادق یا ارباب غلام رحیم والا ماحول واپس لائیں لیکن مقتدر طاقتیں بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کے ساتھ ایسی خفگی نہیں رکھتیں کہ سندھ حکومت کو ہٹانے کے در پے ہو جائیں۔ وفاقی حکومت نے سندھ میں تبدیلی کے امکانات معدوم دیکھ کر سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کے جسد کے نرم حصے یعنی سافٹ بیلی آصف علی زرداری اور ان کے شوگر بزنس کو ٹارگٹ بنایا۔ بقول وفاقی حکومت کے ترجمانوں کے آصف زرداری سندھ میں 18 شوگر ملز کے مالک ہیں اور اسی طرح پنجاب میں شریف خاندان کی بھی کئی شوگر ملز ہیں۔

سندھ اور وفاق کی نوک جھونک اور لڑائیاں دراصل اخلاقی برتری کی جنگ ہے۔ پچھلے الیکشن میں تحریک انصاف کو شہری سندھ سے کافی حمایت ملی اور وہ کراچی میں کافی نشستیں لینے میں کامیاب ہوئی مگر پی ٹی آئی کے اراکین اور شہری سندھ کے ووٹرز تک وفاقی حکومت کی طرف سے کوئی ریلیف نہیں پہنچا۔

پیپلز پارٹی کی حکومت  وفاق سے ملنے والے   سندھ کے کم  مالیاتی حصے کی وجہ سے سندھ  کو ترقی سے نہیں نواز سکی تاہم معاشی تنگ دستی کے باوجود مراد علی شاہ نے سڑکوں کی تعمیر، تھر کی ترقی اور شعبہ صحت میں ایسے کام کر دکھائے ہیں جس سے وفاق پر سیاسی دباؤ بڑھ گیا ہے۔ اسی لیے وفاق سندھ حکومت پر کرپشن اور نا اہلی کے الزام لگا کر اپنے بیانیے کو سچا ثابت کرنا چاہتا ہے۔